اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - سورج کے گرد گھومنے والا وہ سیارہ جس پر زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں چوبیس گھنٹے میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے اس کے نتیجے میں دن اور رات وجود میں آتے ہیں، دنیا، گیتی، ارض، جہان۔
"سمکیاں. زمین کے اس تصور سے ہے جسے زمین بیل کے سینگ پر اور تیل مچھلی کی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے ہے"
( ١٩٧٧ء، معاشی جغرافیۂ پاکستان، ١٣٨ )
٢ - کرہ ارض کا خشک حصہ، پر، خشکی۔
دریا و زمیں و کوہ صحرا باغ و گل و سبزۂ مطرا
( ١٩١٢ء، نذیر احمدخ مجموعہ نظم بے نظیر، ٣٢ )
٣ - زمین کی سطح، دھرتی، فرش زمیں (آسمان کے بالمقابل)۔
"سطح زمین کے قریب . موجود زیر زمیں بہنے والے آبی وسائل کے رخ کا تعین کیا"
( ١٩٧٧ء، معاشی جغرافیۂ پاکستان، ٢٩ )
٤ - سارا زمانہ، پوری دنیا۔
کہاں جائیں ٹھکانہ ہی کہاں ہے زمین دشمن مخالف آسماں ہے
( ١٩٥٣ء، دیوان صفی، ١٤٧ )
٥ - خطۂ ارض، ملک، کشور، وطن، دیس، علاقہ۔
مجھے وطن سے چھڑا کے ہر سو پھرا رہا ہے جو اے جفا جو بتا تو دے مجھکو آسماں تو کرے گا پیوند کس زمیں کا
( ١٨٨٣ء، دیوان صفی، ٨ )
٦ - زمین کا کوئی گوشہ یا حصہ، ٹکڑا۔
"مہاجن دخیل کار نے . زمین بھی حاصل کی اور روپئے کے زور سے . حقوق بھی حاصل کئے"
( ١٩٨٦ء، آینۂ، ٢٩٣ )
٧ - قدیم تقسیم ربع مسکون کے مطابق دینا کا ساتواں حصہ یا طبق۔
"سات زمین آسمان میں اس کا کھیل"
( ١٦٣٥ء، سب رس، ٢ )
٨ - وہ زمین جس پر زراعت ہوتی ہو، مزا روعہ اراضی، کھیت۔
"وہ تو آج صبح سے زمینوں پر گئے ہیں"
( ١٩٦١ء، ہالہ، ١٤٧ )
٩ - [ معاشیات ] معاشیات میں چار عاملین پیدائش (زمین، محنت، سرمایہ اور تنظیممیں سے کوئی عامل جو قدرسی شکل میں انسان کو حاصل ہوتی ہے مثلاً مٹی، پانی، معدنیات اور نباتیات وغیرہ قدرتی وسائل۔
"علم معشیت کی اصطلاح میں زمین کی تعریف علی العموم سارے قدرتی وسائل پر حاوی ہے"
( ١٩٦٩ء، نکتۂ زار، ١٠٥ )
١٠ - کسی امر کی بنیاد، اساس، ابتدائی، کام۔
"جب تک کہ فریقین میں باہمی عزت اور احترام کا جذبہ پیدا نہ ہو کسی مفاہمت کے لیے کوئی ٹھوس زمین تیار نہیں ہو سکتی"
( ١٩٣٧ء، خطبات قائداعظم، ١١٤ )
١١ - [ شاعری ] کسی غزل یا نظم وغیرہ کی بحر، ردیف وقافیہ کی پابندی کے ساتھ۔
"اس زمیں میں کام کا شعر نکالنا مشکل ہو جاتا ہے"
( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٨٧ )
١٢ - باریک بھر بھری مٹی، خاک، دھول، مٹی۔
"اس سے کھیت میں ڈھیلے نہیں اٹھیں گے اور زمین باریک اور عمدہ تیار ہوگی"
( ١٩٧٤ء، زراعت نامہ، اگست، ٤ )
١٣ - کپڑے یا کاغذ وغیرہ کی سطح۔
"چیکوں اور بانڈوں وغیرہ پر اکثر بہت باریک نام ساری زمین پر نمایاں نظر آتے ہیں"
( ١٩٧٨ء، آفسٹ لیتھو گرافی، ١١٣ )
١٤ - کسی عطر کا وہ مادہ یا مائع جس میں کوئی عطر تیار کیا جاتا ہے۔
"جس چیز سے کام لیا گیا اور صندل کا تیل تھا اسے عطر سازوں کی اصطلاح میں صندل کی زمین کہتے ہیں"
( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٣٨ )
١ - زمین اور آسمان کے قلابے ملانا
دون کی ہانکنا، حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کرنا یا جھوٹ کہنا۔"اس شخص کا جس نے زمین اور آسمان کے قلابے ملا کر نظام بطلیموس کی جگہ اپنا نظام قائم کیا"
( ١٨٨٨ء، ابن الوقت، ١٨٤۔ )
٢ - زمین بوس ہو جانا
اظہار تعظیم کے لیے کسی کے حضور زمین چومنا، قدموں تک جھکنا، قدم بوسی کرنا۔ کیا گرا دی ہے کہیں موجہ دریا نے فصیل کیا زمیں بوس ہوا ہے کسی کسریٰ کا محل
( ١٩٧٨ء، ابن انشاء، دل وحشی، ٩٥۔ )
حاضر خدمت ہو کر آداب بجا لانا، کورنش کرنا، سجدہ کرنا، تعظیم بجا لانا جیسا کہ قدیم زمانے کے بادشاہوں کا رواج تھا۔"ان بھائیوں نے زمین بوس کر پہلے اپنے باپ کا سلام پہنچایا'
( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ٩١۔ )
قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے جھکنا۔ آج اس طرح زمیں بوس ہوئے ہم جیسے اپنی جوالا نگہ افکار کبھی عرش نہ تھا
( ١٩٦٢ء، پتھر کی لکیر، ٧٤۔ )
ختم ہونا، مرنا، ٹھنڈا ہونا، مر کر گرنا۔"محاصرہ کرنے والے مختلف ملکوں کے بے شمار فوجی زمین بوس ہو گئے"
( ١٩٨٦ء، دنیا کا قدیم ادب، ٤٩٣:١ )
گر جانا، کسی عمارت یا درخت وغیرہ کاڑھے جانا، زمین پر آ رہنا۔"گنے. طوفان کی زد سے متاثر ہو کر اپنا توازن کھو کر زمیں بوس ہو چکے تھے"
( ١٩٨٤ء، سندھ اور نگاہ قدرشناس، ١٨٦۔ )
٣ - زمین اور آسمان کا فرق ہونا
بہت تفاوت ہونا، کسی قسم کی یکسانیت یا مماثلت نہ ہونا، بہت زیادہ فرق ہونا۔ تجھ میں اور اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے کب مقابل ہو سکے منھ سے ترے اے ماہ مہ
( ١٧٩١ء، حسرت (جعفر علی)، کلیات،٤٩٨۔ )
٤ - حواس جاتے رہنا، بدحواس ہو جانا۔
حواس جاتے رہنا، بدحواس ہو جانا۔ وحشت قدم بڑھا کے جو جال اپنی چل گئی ساری زمیں پاءوں تلے سے نکل گئی
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٥٠۔ )
٥ - زمین تنگ ہونا
مصائب کا سامنا ہونا، مشکلوں سے دوچار ہونا۔"محب وطن پاکستانیوں کے لیے زمین تنگ ہو رہی ہے"
( ١٩٨٩ء، جنگ، کراچی، ٢٧جنوری،٢۔ )
٦ - زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھانا
پستی سے بلندی پر پہنچا دینا، عروج دینا، بہت زیادہ تعریف کرنا۔"کبیر نے اس شعر میں بنیئے کو کیا سے کیا کر دیا زمین سے اٹھا آسمان پر بٹھا دیا"
( ١٩٢٣ء، عظمت، مضامین، ٧٢:٢۔ )