آشفتہ

( آشُفْتَہ )
{ آ + شُف + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


آشُفْتَن  آشُفْتَہ

فارسی مصدر 'آشفتن' سے علامت مصدر'ن' گرا کر 'ہ' بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے 'آشفتہ' بنا۔ فارسی میں بطور حالیہ تمام کا صیغہ مستعمل ہے اور اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : آشُفْتَگان [آ + شُفْ + تَگان]
١ - پریشان، حیران، سراسیمہ۔
 سراسیمہ پریشاں مضطرب آشفتہ و حیراں مرا قاصد تو آیا لیکن آیا کس تباہی سے      ( ١٧٨٢ء، گلزار داغ، ٢٤٤ )
٢ - بکھرا ہوا، پراگندہ، تتر بتر۔
 چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار      ( ١٩٣٨ء، ارمغان حجاز، ٢٢٢ )
٣ - جو بدنظمی یا بدحالی سے دو چار ہو، ابتر۔
"اس کا حال روز بروز آشفتہ ہوتا گیا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٢٦٢:٥ )
٤ - فریفتہ، عاشق، دیوانہ یا سودائی (کسی کا)۔
 ازل کے روز سے آشفتہ گیسوے لیلٰی ہوں نہ کیونکر سلسلہ ہوتا مجھے زنجیر سے پہلے      ( ١٩٠٥ء، دیوان انجم، ١٦١ )
٥ - برہم، غضبناک۔
"نواب نے اس بات پر آشفتہ ہو کے . قتل کر ڈالا۔"      ( ١٩١٣ء، حسن کا ڈاکو، ١٦١:٢ )
  • حَیْران
  • بَدْحَواس
  • فَرِیْفتَہ
  • پرسکون
  • distracted
  • disturbed
  • distressed;  disordered;  uneasy
  • wretched
  • miserable;  deeply in love