رکابی

( رِکابی )
{ رِکا + بی }
( عربی )

تفصیلات


رکب  رِکابی

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم رکاب کے آگے 'ی' بطور لاحقۂ تانیث لگایا گیا ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٨٠ء میں سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : رِکابِیاں [رِکا + بِیاں]
جمع غیر ندائی   : رِکابِیوں [رِکا + بِیوں (و مجہول)]
١ - مٹی، چینی یا کسی دھات کا چھوٹا بڑا پھیلا ہوا برتن، صحنک، سفالی، تشتری، پلیٹ۔
"ایک رکابی میں اس کے لیے پانی رکھا اور آہستہ آہستہ اس کے پیروں کو سہلاتی رہی۔"      ( ١٩٨٧ء، اک محشرِ خیال، ٨١ )
٢ - وہ گھوڑا جسے پریڈ میں پکڑ کر لے جائیں۔
 نہ موڑے باگ فوجوں میں حو ہمدم ہم نوالہ ہو کہاں جاوے وہ گھوڑا چھوڑ کر یارو رکابی ہو      ( ١٧٤١ء، شاکر ناجی، د، ٢٢٤ )
٣ - ساقی، پیالہ بردار، ایک قسم کا روپیہ جو کبھی لکھنؤ میں رائج تھا، تلوار جو گھوڑے کے پہلو میں لٹکتی ہے، ایک قسم کا تیل جو دمشق سے اونٹوں پر آتا تھا، رکابدار۔ (اسٹین گاس، علمی اردو لغت، فیروزاللغات، پلیٹس)
  • a broad flat dish;  a drinking cup
  • a bowl