چھڑا

( چَھڑا )
{ چَھڑا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'چھوٹی' سے ماخوذ 'چھوڑنا' سے فعل متعدی 'چھڑانا' کی تخفیف 'چھڑا' بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء، کو "کلیات بحری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : چَھڑی [چَھڑی]
واحد غیر ندائی   : چَھڑے [چَھڑے]
جمع   : چَھڑے [چَھڑے]
جمع غیر ندائی   : چَھڑوں [چَھڑوں (و مجہول)]
١ - تنہا۔ اکیلا۔
 فرہاد وقیس ساتھ کے سب کب کے چل بسے دیکھیں نباہ کیونکہ ہو اب ہم چھڑے رہے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٠٩ )
٢ - کنوارا، جس نے شادی نہ کی ہو۔
"دراصل مجھ سے ٹیکنیکل غلطی ہوئی ہے میں اکیلا نہیں چھڑا ہوں"      ( ١٩٧٥ء، بسلامت روی، ٣٠٠ )
٣ - واحد، تنہائی پسند شخص؛ یکہ وتنہا؛ بے یاروں مدد گار۔ (پلیٹس)