رسوا

( رُسْوا )
{ رُس + وا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی میں اسم صفت ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور سب سے پہلے ١٧١٣ء میں دیوانِ فائز میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر، مؤنث - واحد )
تقابلی حالت   : رُسْواتَر [رُس + وا + تَر]
تفضیلی حالت   : رُسْوا ترین [رُس + وا + تَرِین]
١ - ذلیل و خوار، بدنام، بے عزت، بے حرمت۔
 اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری تنہا پس زنداں کبھی رسوا سرِ بازار      چھوڑ کر نقشِ قدم ہو کے رہے ہم رسوا اب لیے پھرتے ہیں صورت یہ پریشانوں کی      ( ١٩٥٢ء، دستِ صبا، ٦٤ )( ١٩٨٥ء، رختِ سفر، ٦٢ )
٢ - (لشکر یا قافلے کا) اناج، کھانے کا سامان اور دیگر ضروریات۔
"مرہٹوں نے ایمرالامرا کے بھائی مظفر خان کے لشکر کی رسد بند کر دی۔"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ١٣٧:١ )
٣ - راشن، خوراک، بھتّا، راتب، وظیفہ وغیرہ (کسی بھی شخص وغیرہ کا)۔
"اس میں دو درجے تھے ایک (اے) میں قیدی کی تنخواہ دو روپے تھی دوسرے (بی) میں ایک روپیہ رسد دونوں کو ملتی تھی۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٢٦٧:٣ )
٤ - مویشیوں کا چارہ وغیرہ۔
"جہاں کہیں برسات کا پانی مویشیوں کے چارے کا سہارا دیکھا اتر پڑے، یہاں کی رسد ہو چکنے پر آئی، دوسری جگہ جا ڈیرے ڈالے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٠١:٢ )
  • dishonoured
  • disgraced
  • opprobrious
  • infamous
  • ignominious