ساون

( ساوَن )
{ سا + وَن }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٨٠ء کو سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ
جمع غیر ندائی   : ساوَنوں [سا + وَنوں (واؤ مجہول)]
١ - ہندی سال کا پانچواں مہینہ جس میں تیز بارش ہوتی ہے۔
 وہ ساون کا موسم وہ ٹھنڈی ہوا وہ تاریک شب کالی کالی گھٹا      ( ١٩٨٣ء، سرمایۂ غزل، ٢٦٨ )
٢ - [ مجازا ]  برسات سے متعلق یا ساون کے مہینے میں گائے جانے والے گیت، ساونی، ملہار۔
"موسمی گیتوں میں بارہ ماسے ساون، ملہار گھریلو گیتوں میں جھولے کے گیت، ساون کے گیت، برہا، جدائی مفارقت کے گیت . آنے والے گیتوں کے پیش رو ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، اردوگیت، ١٣١ )
١ - ساون برسنا
جھڑی لگنا، بہت بارش ہونا۔ برسوں ہی ہجر میں رویا کیا ہوں میں برسا سحاب چشم سے ساون ہزار بار      ( ١٨٧٥ء، نظم دردمند، ٧٦ )
  • the fourth Hindu month
  • July-august