سرمہ

( سُرْمَہ )
{ سُرْ + مَہ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور گا ہے بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے ١٥١١ء کو مشتاق "(اردو، اکتوبر، ٣٨:١٩٥٥)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : سُرمے [سُر + مے]
جمع   : سُرم [سُر + مے]
جمع غیر ندائی   : سُرموں [سُر + موں (واؤ مجہول)]
١ - نہایت باریک سفوف، میدا سا۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سُرْمے [سُر + مے]
جمع   : سُرْمے [سُر + مَے]
جمع غیر ندائی   : سُرْمَوں [سُر + مَوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک سیاہ چمکدار پتھر اس کا میدے کا ساپسا ہوا سفوف جو تقویت چشم یا آرائش کے لیے آنکھوں میں لگاتے ہیں۔
"سرم ایک مفید دھات ہے جو زیادہ تر کیمیائی صنعتوں میں کام آتی ہے"      ( ١٩٢٢ء، پاکستان کا تجارتی و معاشی جغرافیہ، ١٣٢ )
٢ - سیسے یا سیاہ پتھر کی باریک سلائی جسے مشینوں سے گول ہموار لکڑی میں رکھ کر پنسل بناتے ہیں، پنسل کے اندر کی سلائی جو عموماً کوئلے اور سرمے وغیرہ سے بنائی جاتی ہے۔
 کوئلہ یعنی کاربن ہے وہ پنسل میں جو ہوتا ہے سرما      ( ١٩١٦ء، سائنس و فلسفہ، ٥٦ )