سرور

( سُرُور )
{ سُرُور }
( عربی )

تفصیلات


سرر  سُرُور

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٥ء کو "آرائش محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - دل و دماغ کی شگفتگی یا سکون بخش کیفیت، خوشی، فرحت، انسباط، کیف، سرشاری۔
"قلب میں سرور پیدا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، سلک الدرر، ٦٢ )
٢ - نشے کا چڑھاؤ، ہلکا سا نشہ جو پر کیف ہو۔
"اس احساس میں ایسا سرور اور نشہ اور اس قدر طمانیت ہوتی ہے جس کے بعد نہ بھوک ستاتی ہے نہ پیاس کی شدت تڑ پاتی ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، مرحبا الحاج، ٢٠ )
١ - سرور آنا
نشہ ہونا، کیف طاری ہونا۔"پڑھتے پڑھتے یہ فقرہ آ جاءے تو واللہ سرور آ جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، پرواز، ٢٠٣ )
٢ - سرور چڑھنا
نشہ طاری ہونا، خوشی و مسرت کی لہر جوڑ جانا۔"ساعت بھر کے لئے گیان دھیان بھول گیا ایک سانس زرا اطمینان کی لی مگر پھر شوق خودشناسی کا سرور چڑھا۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ١٠ )
٣ - سرور لانا
نشہ چڑھانا، مست کرنا۔ میخانئہ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٧٧ )
  • "Making glad";  pleasure
  • delight
  • joy
  • cheerfulness