گانا

( گانا )
{ گا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


گان  گانا

سنسکرت زبان کا اصل لفظ 'گان' سے ماخوذ اردو میں 'گانا' مستعمل ملتا ہے اردو میں بطور فعل اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - منھ سے سُر یا سریلی آواز نکالنا، سریلے بول بندھے ہوئے سروں میں نکالنا، نغمہ سرائی کرنا، لہکنا۔
"وہ سورج کے ساتھ ساتھ نیچے اترے . سارا شہر روشنیوں سے جگمگانے لگا . اگر آج وہ نہ گائے تو . ?"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٢٧ )
٢ - [ کنایۃ ]  اپنے مطلب کی بات کہنا، اپنی کہے جانا۔
 یاراں چمن گاتے ہیں اپنی اپنی میر سنتے تو دیر تک سر دھنتے      ( ١٩٥٧ء، یگانہ، گنجینہ، ١٤٤ )
٣ - [ کنایۃ ]  بے ہودہ باتیں کرنا، بکنا، بکواس کرنا۔
 کیا اوج دو روزہ ہے تو کیا گاتا ہے پھر سوئے حفیض، آسماں لاتا ہے      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١٩٤:٢ )
٤ - باتیں بنانا۔
 ہم تو مطرب پسر کے جاتے ہیں گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٢٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گانے [گا + نے]
جمع   : گانے [گا + نے]
جمع غیر ندائی   : گانوں [گا + نوں (و مجہول)]
١ - نغمہ، سرور، نشید۔
"تمام ڈبوں میں ساونڈ سسٹم نصب تھا اس پر گانے تو چل رہے تھے لیکن اسٹیشنوں کی آمد پر ان کے ناموں کا کوئی اعلان نہ کیا جاتا تھا۔"      ( ١٩٩٣ء، جنگ، کراچی، ١٢ فروری، ٣ )