قابض

( قابِض )
{ قا + بِض }
( عربی )

تفصیلات


قبض  قابِض

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : قابِضِین [قا + بِضِین]
جمع غیر ندائی   : قابِضوں [قا + بِضوں (و مجہول)]
١ - خدائے تعالٰی کا ایک صفات ینام، نپی تُلی روزی دینے والا۔
 تُو غفور و باسط و حق واسع و قابض ہے تُو تُو شکور و عفو ہے اور رافع و خافض ہے تُو      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٤ )
٢ - روکنے والا، پکڑنے والا، قبضہ کرنے والا، قبضہ رکھنے والا۔
"بدقسمتی سے قائدین کے رخصت ہوتے ہی ملک پر نوکر شاہی قابض ہو گئی۔"      ( ١٩٨٦ء، رؤدادِ چمن، ١١٢ )
٣ - [ طب ]  قبض پیدا کرنے والا، وہ چیز جو قبض پیدا کرے۔
"دودھ وزن بڑھاتا ہے، قابض ہے۔"      ( ١٩٨١ء، متوازن غذا، ٢٦ )
٤ - جان قبض کرنے والا، روح کھینچنے والا۔
"شراتن ممتنع الوجود، اس کا قابض کرنے ہارا عزرائیل۔"      ( ١٤٢١ء، معراج العاشقین، ١٩ )
  • دَخِیْل
  • مُتَسلِّط