قافیہ

( قافِیَہ )
{ قا + فِیَہ }
( عربی )

تفصیلات


قفو  قافِیَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے معنی و ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : قافِیے [قا + فِیے]
جمع   : قافِیے [قا + فِیے]
جمع استثنائی   : قَوافی [قَوا + فی]
جمع غیر ندائی   : قافِیوں [قا + فِیوں (و مجہول)]
١ - [ عروض ]  پیچھے چلنے والا؛ چند حروف و حرکات کا مجموعہ جس کی تکرار الفاظ مختلف کے ساتھ آخر مصرع یا آخر بیت یا دو فقروں کے آخر میں پائی جائے۔ خواہ وہ الفاظ لفظاً مختلف ہوں یا معناً۔
"آنے اور پانی . طفل اور عقل کو بطور قافیہ استعمال کیا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٥٩:١٠٢ )
  • the rhyme
  • cadence
  • metre
  • the last letter in a verse