اخیر

( اَخِیْر )
{ اَخِیْر }
( عربی )

تفصیلات


اخر  آخِر  اَخِیْر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٩٢ء کو "تحفۃ الاحباب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت
١ - انتہا، حد، خاتمہ۔
 خیال نسیم شبی، آرزوے بیتابی وہ آرزو کہ ہے جس کی نہ انتہا نہ اخیر      ( ١٩٥٥ء، دو نیم، ٢٩ )
٢ - آخری حصہ، اواخر، زمانہ اختتام۔
"موسم بہار کے اخیر کا پالا بہت ہی خراب ہوتا ہے۔"      ( ١٩١٠ء، تربیت الصحرا، ١٧ )
٣ - انجام، نتیجہ۔
 اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو غبار ہو کر اڑا کرو گے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٤٧ )
صفت ذاتی
١ - جس کے بعد کوئی دوسرا نہ ہو، آخر کا، آخری (ترتیب زمانی یا مکانی کے لحاظ سے)۔
"عقل ہیولانی اخیر درجے پہنچ کر روحانیات محض کا ادراک کر سکتی ہے یا نہیں۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٤٨:٥ )
٢ - [ مقابلۃ ]  بعد کا، سابق سے لاحق، مقدم کے بالمقابل۔
"اخیر مصرعے مقفی ہوں یہ کچھ ضرور نہیں۔"      ( ١٩٣١ء، رسوا، مرزا رسوا کے تنقیدی مراسلات، ٧٩ )
٣ - جو حرف آخر کا حکم رکھتا ہو، قطعی، اٹل، (انگریزی) Final۔
 حکم اخیر کی تھی توقع بروز حشر باقی رہا نہ دن ہی جب اظہار ہو چکا      ( ١٨٦١ء، دیوان ناظم، ٦ )
متعلق فعل
١ - آخر کو، انجام کار، بالآخر۔
 اخیر یہ کہ ستم پر ستم ہوا ہیہات علی کے لال کا بازو قلم ہوا ہیہات      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (ق)، ١٥ )