شاخ

( شاخ )
{ شاخ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ سنسکرت میں اس کا مترادف لفظ'شاکھا' ہے۔ اغلب ہے کہ فارسی میں سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : شاخیں [شا + خیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شاخوں [شا + خوں (و مجہول)]
١ - ٹہنی، ڈالی۔
"ایک چڑیا اوپر درخت کی شاخ سے اڑ کر اس کے اوپر بیٹھ گئی۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٣٣ )
٢ - سینگ یا سینگ نما شے۔
"دو تین گھونسے ایسے مارے کہ دیو کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، شاخ کو توڑ ڈالا خون کا پرنالہ منہ پر دیو کے بہا۔"    ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٣، ٢٥٠ )
٣ - سوراخ کیا ہوا سینگ جو رفع درد کے لیے انسان کے جسم پر لگاتے ہیں، سینگی۔
"شاخ یعنی سینگی کا حمام اس کو جسم پر رکھ کر چوستے ہیں اس لیے کہ خون ایک جگہ جمع ہو جائے۔"    ( ١٨٤٥ء، مطلع العلوم (ترجمہ)، ١٩٧ )
٤ - کسی بڑے خاندان، نبیلہ یا قوم کا ذیلی حصہ یا ٹکڑا، اولاد، نسل۔
"امیہ کی اولاد نے اپنی گجرائی سے آپ کی برتری کو مخالف شاخ کی برتری کا مترادف سمجھا۔"      ( ١٩٧٢ء، جلوہ حقیقت، ١٦٦ )
٥ - علم و فن وغیرہ کی ذیلی قسم یا سلسلہ۔
"نفسیات کبھی فلسفے کی شاخ تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ١٣ )
٦ - کسی بڑے ادارے یا تنظیم وغیرہ کا ذیلی ادارہ یا حصہ، برانچ۔
"ہانگ کانگ میں بھی ایک شاخ قائم کرنے آیا ہوں۔"      ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ٩٤ )
٧ - مٹھائی کی ایک قسم، میدے میں میٹھا ملا کر گوندھتے ہیں اور اس کے لمبے قتلے بنا کر تلتے ہیں، میٹھا سموسہ۔
"وہ نسیمہ نے جلدی جلدی سب طرح کا پکوان، شاخیں . پوریاں تلے سب تیار کر لیے۔"      ( ١٩٤٤ء، رفیق حسن، گوری ہو گوری، ١٥٢) )
٨ - انوکھی بات، ہنر، خوبی، طرۃ
 قادر ہے وہ شاہوں کا اجارا کیا ہے جمشید میں کیا شاخ ہے دارا کیا ہے      ( ١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ١٥٦ )
٩ - ٹکڑا، قاش، بادام یا پستے کی ہوائی۔
"بادام اور پستوں کی موٹی موٹی شاخیں کاٹ لیں۔"      ( ١٩٤٧ء، شاہی دسترخوان، ٥٠ )
١٠ - پیشانی، جبین، ماتھا۔
 وہی نامور یو اہے بدسگال جو صلصال کا دہرتا ہے شاخ و بال      ( ١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٦٦٢ )
١١ - اظہار تعداد کے واسطے جو خاص ہرن سے مخصوص ہے جیسے چار شاخ ہرن۔ (ماخوذ : فرہنگِ آصفیہ)
١٢ - کسی دریا یا نہر کا ذیلی حصہ جو اس سے نکل کر الگ ہو جائے، دریا سے نکالی ہوئی نہر۔
"شاخ اور صدر نہر کی ہر ایک لمبائی کے پانی کے سماو کو نکالنا چاہیے۔"    ( ١٩٤٩ء، آبپاشی، ٤٩٥ )
١٣ - کمان کی لکڑی۔
 ہر صید کی کمر سی گئی ٹوٹ جس گھڑی ٹوٹی کمان دلبر ناوک فگن کی شاخ    ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٠٠ )
١٤ - تلوار کا پھل یا خم۔
 دہن زخم شہیداں نے جو تر خندہ کیے شاخ شمشیر سے کیا پھول نکالے تم نے    ( ١٨٦٥ء، دیوان نسیم لکھنوی، ٣٤ )
١٥ - انگلی سے کھولے تک یا چڈے سے پانو تک کا حصہ، ہاتھ، ٹانگ۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔
١٦ - ایک قسم کا بارود رکھنے کا ظرف (سینگ) جس کو کمر میں باندھتے ہیں۔ (نوراللغات)
١٧ - پخ، جھگڑا، ٹنٹا۔ (نوراللغات؛ فرہنگِ آصفیہ)
١٨ - گھوڑے کے سم کے سامنے کی کور جس پر نعل ٹھونکا جاتا ہے۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 65:5)
١٩ - قسم، نوع، فرع۔
"جناب پیغمبرۖ خدا . نے فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٨٧:٣ )
٢٠ - امتیاز، طرہ، اضافی خصوصیت۔
 دیکھا تو سادگی میں بھی لاکھوں بناؤ ہیں جب سے لگائی آپ نے یہ بانکپن کی شاخ      ( ١٩٠٦ء، تیر و نشتر، ٢٢ )
٢١ - مرغ کا کانٹا؛ شراب کا پیالہ؛ گھر کا بڑا شہتیر؛ خوشبو؛ مشک بلاو؛ لکڑی یا شاخ جس میں مٹھائی کی پنیڑی بندھی ہو؛ تھوڑے بال، گیہوں کی بال، مصری کے کوزے کے ساتھ لگی ہوئی لکڑی مثلاً شاخِ نبات، مصری۔ (پلیٹس، علمی اردو لغت)۔
  • A bough
  • branch (of a tree);  a twig;  a stalk;  a slip or cutting;  a horn;  a cupping instrument;  (fig.) a dilemma
  • difficulty;  objection