شوریدہ

( شورِیَدہ )
{ شو (و مجہول) + ری + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


شوریدن  شورید  شورِیَدہ

فارسی میں مصدر 'شوریدن' سے فعل ماضی مطلق واحد غائب 'شورید' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقہ حالیہ تمام بڑھانے سے 'شوریدہ' بنا۔ فارسی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور صفت نیز گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پریشان، پراگندہ (ذہن)، خستہ و خراب؛ پریشان حال۔
 سنے تو ہوں گے مرے نغمہ ہائے شوریدہ ترا کمال ترنم مرا نصیب پُکار      ( ١٩٤٧ء، میں ساز ڈھونڈتی رہی، ١٥٩ )
٢ - شور آلودہ، نمکین، کھاری، تلخ۔
 پھپھولے اشکِ شوریدہ سے ہوں کیونکر نہ کانٹوں پر نہیں تیزاب سے کچھ کم ہماری بوند آنسوں کی      ( ١٨٤٥ء، کلیاتِ ظفر، ٢٦٨:١ )
٣ - [ کنایۃ ]  بھپرا ہوا، تندوتیز، سرکش، فتنہ انگیز۔
"اگر آپ کا ظرف دریا کی طرح گہرا ہے تو میں کمتر قابل معافی ہوں چونکہ میں ایک شوریدہ موج کے سوا کچھ بھی نہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، چولستان، ٢٧١ )
  • disturbed (in mind)
  • distracted
  • frantic;  desperately in love;  faint;  dejected