گتھی

( گُتّھی )
{ گُتھ + تھی }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان کے لفظ 'گتھ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت و تانیث لگانے سے 'گتھی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٩٠١ء کو "الف لیلہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : گُتّھیاں [گُتھ + تِھیاں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گُتّھیوں [گُتھ + تِھیوں (و مجہول)]
١ - وہ گرہ جو دھاگے، ڈور یا تار وغیرہ کے الجھ جانے سے پڑ جاتی ہے۔
"کبھی کبھی ایسی گتھیاں ڈال دیتے کہ لمڈورے کی نوبت آ جاتی۔"      ( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ٢٠، ٤:٨ )
٢ - [ کنایۃ ]  الجھن، پریشانی۔
"افلاطون اور ارسطو کا یونان جنھوں نے فلسفہ، قانون، شہریت اور ادب کی گتھیوں کو سلجھا کر آنے والے ادوار میں انسانی فکر اور تخیل کی راہیں آسان کر دیں۔"      ( ١٩٩٢ء، اردونامہ، لاہور، جولائی، ١٥ )
٣ - تھیلی
"گتھی میں دو پتھر ہوتے ہیں اور ایک لوہے کا ٹکڑا جسے چکماک بھی کہتے ہیں۔"      ( ١٩٧٦ء، بلوچستان (ماضی، حال، مستقبل)، ١٠٨ )
٤ - چکتا، پھٹکی، نشان، داغ، دھبا (انگ : Clot)
"اگر ایک دو دن یہ مرض اور باقی رہتا تو اس میں گتھیاں بلند ہو کر لحاۃ تک پہونچ جاتیں۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٧٥ )