گرہ

( گِرَہ )
{ گِرَہ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : گِرہیں [گِر + ہیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گِرہوں [گِر + ہوں (واؤ مجہول)]
١ - بندھن، انٹی، گانٹھ، عقدہ، گتھی۔
 ہر ایک گرہ کو کھول ڈالا میں نے ہر بند کو توڑا ہے بجز بند اجل      ( ١٩٨٢ء، دست زرفشاں، ١٢٠ )
٢ - وہ گرہ جو سال گرہ کے دن ناڑے میں پرانی گرہوں کے بعد بطور رسم بڑھائی جاتی ہے۔
 یوں اس گرہ سے بڑھتے رہیں سال عمر کے جیسے ہوں ایک تخم سے بے انتہا نہال      ( ١٩٤٠ء، بے خود (محمد احمد)، کلیات، ١٥٠ )
٣ - جیب، پاکٹ، (مجازاً) قبضۂ ملکیت، تحویل۔
"جب حیدر آباد لوٹا تو چند ہزار روپے گرہ میں تھے۔"      ( ١٩٨٤ء، گردراہ، ١٠٦ )
٤ - گز کاسولھواں حصہ، تین انگل کی چوڑائی۔
"گزی: ایک قسم کے موٹے اور مضبوط کپڑے کو کہتے ہیں . اس کا اس "گز" کے ناپ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو سولہا گرہ کا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جولائی تا ستمبر، ٧٤ )
٥ - بند، جوڑ، ہڈیوں کا جوڑ، بند اعضا۔
"اس کے نیچے کی داڑھ کے نیچے ایک گرہ ہوتی ہے اور دانت بے شمار ہوتے ہیں۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات (ترجمہ)، ٥٦٨ )
٦ - کنڈلی
 تو سن تراز میں یہ جو کاوے کا ڈالے نقش سمجھیں کہ بیٹھا مار کے ہے اژدہا گرہ    ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٤٨٤ )
٧ - ابھار، حلقہ، دائرہ۔
 گھلا ہوں اس قدر جل جل کے ہجر یار میں اے برق گرہ ہے آگ کا مجکو شرارہ میرے آنسو کا    ( ١٨٥٢ء، دیوان برق، ١٠٦ )
٨ - بانس، لکڑی یا گنے کی وہ جگہ ایک گرہ دوسری گرہ سے ملتی ہے۔ لکڑی یا بانس وغیرہ کی شاخ کا کسی دوسری شاخ سے ملنے کا نشان۔
"اچھے چوب کار کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ لکڑی کی قسم اس کی ماہیت اس کے رگ و ریشے اور گرہوں سے واقف ہو۔"      ( ١٩٦٥ء، کاگر، کراچی، جنوری، فروری، ١٨ )
٩ - ہلدی، ادرک، سونٹھ وغیرہ کی جڑ، گٹھی۔
"چنانچہ جب لوگ شکار کھیلنے چلے جاتے تو عورتیں قبیلے کی جائے قیام کے نزدیک جڑیں، گرہیں اور ترکاریاں جمع کر لیتیں۔"      ( ١٩٤٠ء، مکالمات سائنس، ٢٤١ )
١٠ - غدود، گلٹی
"ان کی اکثر انواع کے جسم میں ایک گرہ ہوتی ہے جس ایک بدبودار مادہ خارج ہوتا ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٥٤٥ )
١١ - گچھا، خوشہ، پگھل کر جمی ہوئی دھات یا دھات کی پھٹکی۔
"جب اوس نے آگ دی پارہ تو اوڑ گیا چاندی ڈھل کر گرہ ہو گئی۔"      ( ١٨٦٩ء، جوہر عقل، ٥٩ )
١٢ - پیشانی کا بل، شکن، چین جبیں۔
"بادشاہ کا برا حال تھا، غصے سے چہرہ تمتمایا ہوا، ابروؤں میں گرہ، زبان پر گالیاں، دل و دماغ اس کے قابو میں تھے ہی نہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، روشنی، ٩٣ )
١٣ - بند کے اخیرر کا شعر، ٹیپ کا شعر، مصرع، طرح پر مصرع لگا کر بنایا ہوا شعر۔
 وطن نو پہ مسلط ہیں یہ افراد ایسے مصرع تازہ کی ہو جیسے کہ پامال گرہ      ( ١٩٥٥ء، ضمیر خامہ، ٢٩٥ )
١٤ - برچھی کا وہ حصہ جس میں سناں لگی ہوتی ہے۔
 غل تھا کہ وہ چمکتی ہوئی برق یہ گری برچھی سے اڑ گئی ہو سناں پہ گرہ گری      ( ١٨٧٤ء، انیس (نوراللغات)۔ )
١٥ - کدورت، رنج، ملال۔
 تڑپ کر دم نکل جائے مگر کھلنا نہیں ممکن تری دل کی گرہ ٹانکا ہے میرے زخم پنہاں کا      ( ١٨٧٢ء، مرآۃ الغیب، ٤٤ )
١٦ - مال، دولت، جیسے اس کو گرہ کا بل ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٧ - لکنت
 گفتگو یہ سر جھکا کر شرمگیں انداز سے یہ گرہ ہر لفظ میں رکتی ہوئی آواز سے      ( ١٩٢٥ء، نقش و نگار، ٣٣ )
١٨ - پیچیدگی، مشکل، دشواری۔
"وہ گرہیں جو شروح و حواشی . میں پیدا کر دی تھیں۔"      ( ١٩٦٠ء، گل کدہ، رئیس احمد جعفری، ١٦٦ )
١٩ - [ کشتی ]  ایک دانو۔
"طاقت آزمائی کے بعد دانوں پیچ شروع ہوئے اور اک دستی، دوستی . گرہ۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٥٨ )
٢٠ - [ موسیقی ]  سروں کی ترتیب وار آواز کے درمیان کا وقفہ، مقررہ تال، جہاں سے دوبارہ سر یا راگ بجانے کو لوٹیں، سم۔
"تال کے دس پران یعنی اصطلاحیں مقرر کی ہیں، اول کال دوم مارگ . پنجم گرہ . دہم پرستار۔"      ( ١٩٢٧ء، نغمات الہند، ٨٤ )
٢١ - [ ینی سازی ]  بے قاعدہ کٹائی سے ورق کی سطح جو کہیں کہیں موٹی رہ جاتی ہے وہ اصطلاحاً گرہ کہلاتی ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 43:3)
٢٢ - [ نفسیات ]  ذہنی پیچیدگی، ذہنی الجھاؤ۔
"جب کسی گرہ کی جذبی کیفیت بہت شدید ہوتی ہے تو اس سے شعور پر جو عمل ہوتا ہے وہ اسی لحاظ سے بہت شدید ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، نفسیات جنوں، ٤٦ )
١ - گرہ کا کھل جانا
ذاتی نقصان ہونا، پلے سے جانا، جیب سے نکلنا، ڈب سے نکلنا، گانٹھ کا جانا۔ (نور اللغات، فرہنگ آصفیہ)
٢ - گرہ کھولنا
گانٹھ کھولنا، بندھی ہوئی چیز کھولنا۔"شرفو گرہ کھولتا ہے اور کچھ سکے نکال کر ماسٹر صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ٥٣ )
عقدہ وا کرنا، گتھی سلجھانا۔ ذکر وطن میں محو ہیں فکر وطن سے دور الجھا رہے ہیں بات گرہ کھولتے نہیں      ( ١٩٨١ء، ماجرا، ٤٢ )
دل کی کدورت یا رنجش دور کرنا۔ عدو کے دل کی گرہ اک ادا میں کھول گئے وہ کیا چھپاتے ہیں ہم اک نظر میں تول گئے      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانہ الہام، ٣٤٧ )
مشکل حل کرنا، عقدہ کشائی، گتھی سلجھانا۔"سخاوت کے ہاتھ سے ہر گرہ کو کھولا۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٢٧ )
کلی کھلانا۔ چمن میں جا کے گرہ تو نے غنچہ کی کھولی پر اپنا عقدہ دل تجھ سے اے صبا نہ کھلا      ( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٢:٢ )
٣ - گرہ بند ہونا
عقد بندھنا، بندھن میں بندھنا، شادی کی گرہ میں بندھنا۔ بہت خوش وضع تھا بھائی کا فرزند ہوئی ساتھ اس کے شادی کی گرہ بند      ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٤١٢:٢ )
  • A knot;  knob;  node;  joint
  • knuckle;  an articulation;  a division (one-sixteenth) of a gaz or yard
  • three finger-breadths;  a purse;  a gland;  a kernel;  an entanglement
  • a difficulty;  impediment(in speech);  prejudice;  misunderstanding
  • dissension