آہٹ

( آہَٹ )
{ آ + ہَٹ }
( ہندی )

تفصیلات


آنا  آہَٹ

ہندی زبان میں مصدر 'آنا' اور 'ہٹنا' سے علامت مصادر گرا کر آ + ہٹ بنا۔ ہندی میں بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو زبان میں داخل ہو کر بھی اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے سب سے پہلے ١٧١٣ء میں فائز دہلوی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آہَٹیں [آ + ہَٹیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آہَٹوں [آ + ہَٹوں (و مجہول)]
١ - آنے جانے یا چلنے کی ہلکی سی آواز، خفیف سی چاپ (اکثر پاؤں یا کسی اور قرینے کے ساتھ مستعمل)۔
"حکم تھا کہ آنے والی عورت کی آہٹ سنتے ہی فوراً آنکھ سے اوجھل ہو جاؤں۔"    ( ١٩٣٦ء، راشدالخیری، گرداب حیات، ٥٣ )
٢ - بہت ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ، کھٹکا، پتا ہلنے کے برابر آواز۔
 قبا اس نقرئی کھونٹی سے گرتی ہے مگر دیکھو اس انداز متانت سے کہ آہٹ تک نہیں ہوتی    ( ١٩٠٢ء، جذبات نادر، ١٤٢:١ )
٣ - [ مجازا ]  علامت، ادنٰی آثار، کان میں بھنک پڑنے یا سن گن ملنے کی صورت حال۔
مسیح کے تمام پیرو خوف کی آہٹ معلوم ہوتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔      ( ١٨٩٥ء، آیات بینات، ١٥:٢ )
١ - آہٹ پر کان لگانا
سن گن لینے کے لیے یا انتظار میں سامعہ کو کسی خاص جانب متوجہ رکھنا، چوکنا ہونا، منتظر ہونا۔'پہرے والے نے جو آہٹ پر کان لگائے ہوئے خاموش بیٹھا تھا پہلے ایک سوراخ سے جھانک کر دیکھا۔"      ( ١٩١٠ء، فلپانا، شرر، ٦٦ )
٢ - آہٹ پر کان (لگنا | ہونا)
آہٹ پر کان لگانا کا فعل لازم ہے۔'دروازے کی آہٹ پر کان لگے ہوئے تھے جہاں ذرا کھٹکہ ہوا بڑھیا نے کہا کون۔"      ( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٢٧ )
٣ - آہٹ دینا
پاءوں کی چاپ سے اشارہ کرنا۔'ملکہ کو دیکھ کر کڑھا اور پاءوں کی آہٹ دی، ملکہ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔"      ( ١٨٨٣ء، طلسم ہوشربا (انتخاب)، ٨٦:١ )
٤ - آہٹ لینا
کھٹکے کی تمیز کرنا، آواز کو پہچاننا، سن گن لینا، ٹوہ لگانا۔'آہٹ لینے کے لیے کان لگاتا ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، انارکلی، ٥٨ )
خبر رکھنا، خیال رکھنا، چوکسی کرنا۔ بتوں سے ان کو نہیں لگاوٹ مسوں کی لیتے نہیں وہ آہٹ تمام قوت ہے صرف خواندن نظر کے بھولے ہیں دل کے سادے      ( ١٩٠٧ء، کلیات اکبر، ٣١٠:١ )
  • sound of feet approaching
  • sound of soft footsteps;  sound
  • noise
  • clack tick