صدا

( صَدا )
{ صَدا }
( عربی )

تفصیلات


صدء  صَدا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم مصدر ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : صَدائیں [صَدا + اِیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : صَداؤں [صَدا + اوں (و مجہول)]
١ - آواز، بازگشت؛ گونج۔
 اپنی اپنی سوچ کے خود ساختہ گنبد میں ہم اپنی صداؤں کے سوا کچھ بھی نہ تھے    ( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٩١ )
٢ - آواز۔
 مقتل کی طرح سو گئی کیا گھر کی فضا بھی آتی نہیں اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی    ( ١٩٦٨ء، دریا آخر دریا ہے، ٩٣ )
٣ - پکار، ندا۔
"کیا آپ کی صدا پر لبیک کہنے کا یہ نتیجہ ہے۔"    ( ١٩٤٧ء، اک محشرِ خیال، ٢٩ )
٤ - وہ کلمات جو فقیر بھیک مانگنے کے لیے مُنہ سے نکالتا ہے، فقیر کے مانگنے کی آواز۔
 سرراہ بیٹھے ہیں اور یہ صدا ہے کہ اللہ والی ہے بے دست و پا کا      ( ١٩٢٨ء، آخری شمع (حضور)، ٧١ )
٥ - [ تصوف ]  وہ صوتِ حق جو قلب پر وارد ہوتی ہے۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 159)۔
٦ - [ قدیم ]  سدا کا بگاڑ، ہمیشہ۔
  • Echo;  sound
  • noise;  voice
  • tone
  • cry
  • call