شیرہ

( شِیرَہ )
{ شی + رَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٧٢ء کو "قرآۃ الغیب" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : شِیرے [شی + رے]
جمع   : شِیرے [شی + رے]
جمع غیر ندائی   : شِیرِوں [شی + روں (واؤ مجہول)]
١ - رس جو پھلوں وغیرہ کو نچوڑ کر نکالا جائے، افشردہ، نچوڑا ہوا رَس۔
"ایک سیر گلاب کا شیرہ نکال کر ان اشیا میں ملاتے ہیں۔"    ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ١٤٢:١ )
٢ - [ طب ] عرق جو کسی چیز کو پیس کر یا گِھس کر نکالا جائے۔
"شیرہ مغز بادام شیریں ٧ دانے شیرہ تخم کا ہو ٣ ماشے رات کو سوتے وقت دینا چاہیے۔"    ( ١٩٦٨ء، ہمدرد صحت ڈائجسٹ، ٣٦، ١٥٥:٥ )
٣ - شکر یا مصری وغیرہ کا قوام، چاشنی۔
"میں نے آپ کے آنے کی خبر سنی تو ارادہ کیا کہ تھوڑا سا شیرہ جسے میں نے کدو کے تونبے میں رکھ چھوڑا۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ٨٤:٢ )
  • Juice (of fruit);  sap;  syrup