قیاس

( قِیاس )
{ قِیاس }
( عربی )

تفصیلات


قیس  قِیاس

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل حالت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : قِیاسوں [قِیا + سوں (و مجہول)]
١ - ذہن میں دو چیزوں کے درمیان موازنہ یا برابر کرنے کا عمل، کسی چیز کی مثال سے اندازہ کرنے کا عمل۔
"ہم ہندوستانی قیاس اور ارسطو کے قیاس کا موازنہ کر سکتے ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، فلسفہ کیا ہے، ٧٢٢ )
٢ - تخمینہ، اندازہ، جانچ۔
"شاہ قاسم کی ولادت کا صحیح تعین نہیں کیا جاسکا ہے قیاس ہے کہ بارہویں صدی ہجری کے ربیع الاوّل میں پیدا ہوئے۔"    ( ١٩٨٦ء، قومی زبان، کراچی، ٤٣ )
٣ - خیال، گمان، فکر، سوچ۔
 نہ کبھی تھا میرے گمان میں نہ کبھی تھا میرے قیاس میں تیری بے رخی سے کھلا ہے اب جو مزہ ہے عالم یاس میں    ( ١٩٨٧ء، بوئے رسیدہ، ٣٥ )
٤ - فہم، سمجھ، دانست۔
 خدا نے زندگی دی آدمیت تو نے اے آقا قیاس زنگ آلودہ کو صیقل تُو نے دِلوایا      ( ١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ٤٢ )
٥ - [ فقہ ]  ایک شرعی حکم سے دوسرے حکم کا استخراج۔
"ایک شرعی حکم سے دوسرے حکم کا اخراج کرنے کو قیاس کا نام دیا گیا ہے۔"      ( ١٩١٦ء، سوانح خواجہ معین الدین چشتی، ٣٦ )
٦ - [ منطق ]  دو قضیوں سے مرکب قول جس کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ایک اور قول تسلیم کرنا لازم آئے، منطقی مقولہ۔
"شعر بھی ایک قیاس ہے قضا یا سے مرکب ہے"      ( ١٩٠٧ء، مخزن، جولائی، ٤٩ )