قبیح

( قَبِیْح )
{ قَبِیْح }
( عربی )

تفصیلات


قبح  قَبَح  قَبِیْح

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں اصل حالت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - برا، خراب، نازیبا، مکروہ۔
"اشیا کے اندر حسن کا ادراک خود ہمارے ذہن کا ادراک ہوا کرتا ہے اور انہیں ہمارا ذہن ہی، حسین، قبیح اور جلیل بناتا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، فلسفہ کیا ہے، ٢٧٣ )
٢ - معیوب، مذم، قابل شرم۔
"عشق چاہے کسی نوعیت کا ہو جذبات قبیح سے پاک ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، شخصیت اور فکر و فن، ١٧٧ )
٣ - [ کنایۃ ]  ناجائز، حرام۔
"ہم نے اس خلاف قانون اور خلاف شرح قبیح فعل کا ارتکاب بہتر گھنٹے قبل شروع کیا تھا۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامُکھ، ١٧١ )
  • base
  • vile
  • detestable;  bad
  • shameful
  • disgraceful;  deformed;  ugly