شہید

( شَہِید )
{ شَہِید }
( عربی )

تفصیلات


شہد  شَہِید

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : شُہَدا [شُہَدا]
جمع استثنائی   : شَہِیدان [شَہی + دان]
جمع ندائی   : شَہِیدو [شَہی + دو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شَہِیدوں [شَہِی + دوں (و مجہول)]
١ - دینِ اسلام کی خاطر جان دینے والا، خدا کی راہ میں قربان ہونے والا، امرِ حق پر جان دینے والا، شہادت کا رتبہ پانے والا۔
"جیسے گھر میں مجلس ہو رہی ہو جیسے کر بلا کے سارے شہید تپتی ریت پر پڑے ہوں۔"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ١٣٥ )
٢ - مقتول، مذبوح، کشتہ، کسی مقصدِ وحید کے لیے جان دینے والا۔
 شہیدان ستم کی تربتیں کوئے محبت میں بالآخر رفتہ رفتہ مٹ گئیں نقشِ وفا ہو کر      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٩٤ )
٣ - [ کنایۃ ]  فریفتہ، عاشق۔
 زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کر بلائیں بھی مرید قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید      ( ١٩٠٧ء، کلیاتِ اکبر، ٢٨٧:١ )
٤ - [ کنایۃ ]  مجروع، گھائل۔
 دیرینہ آرزو ہے اب تک شہید حرماں ہر چند پشت پر ہے اک لشکرِ و سائل      ( ١٩٤٩ء، سموم و سبا، ٢١ )
٥ - شکستہ، ٹوٹا ہوا (اشیا کے لیے مخصوص)
"وہ ہائیں ہائیں کرتے رہے اور ادھر سب پیالے اور قابیں شہید ہو گئیں۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٣٨ )
٦ - گواہ، گواہی دینے والا۔
"شہید: گواہ و امین۔"      ( ١٩٢٥ء، فن تاریخ گوئی اور اسکی روایت، ١١٦ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ ذات جس کا علم کامل ہو، مراد: ذاتِ الٰہی، عالم الغیب، خدا کا ایک وصفی نام۔
 یاعظیمُ یا حلیمُ یا رقیبُ یا مجیب یا حمیدُ یا معیدُ یا شہیدُ یا حسیب      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٥ )