گرج

( گَرَج )
{ گَرَج }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے امکان ہے کہ سنسکرت سے بھی ماخوذ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسنِ شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم صوت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - بادلوں کے ٹکرانے کی آواز۔
"ایک دم بادل گھر آئیں گے گرج اور کڑک پھر شروع ہو جائے گی۔"      ( ١٩٨٠ء، لہریں، ١١٣ )
٢ - زور کی آواز، مہیب آواز، کڑک۔
"مولانا کی گرج سے حکومت برطانیہ کے ایوانوں میں زلزلے پڑتے تھے۔"    ( ١٩٨٥ء، حیات جوہر، ١١ )
٣ - زور کی چنگھاڑ، چیخ (شیر یا ہاتھیی وغیرہ کی)۔
"شیر کی گرج ایک نہایت ہی مہیب آواز ہے۔"    ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٢٨ )
٤ - [ مجازا ]  فوں فاں، شیخی، گھمنڈ۔
 جو کر آئے سیر لندن ہیں اسیر کبرو وفیشن جو یہیں گئے ہیں بن ٹھن انہیں اپنڈ ہے گرج ہے      ( ١٩٣١ء، اکبر، کلیات، ٣١٢:١ )
٥ - [ مجازا ]  رعب داب۔
 نہ ہنونت گرجے مرے راج میں اہے گرج میر اترے راج میں      ( ١٥٦٤ء، حسن شوقی، دیوان، ٧٩ )