جلاپا

( جَلاپا )
{ جَلا + پا }
( سنسکرت )

تفصیلات


جَلْنا  جَلاپا

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'جلنا' سے مشتق صیغۂ امر 'جل' کے ساتھ ہندی لاحقۂ کیفیت 'اپا' لگانے سے 'جلاپا' بنا اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٣٨ء میں "گلزار نسیم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : جَلاپے [جَلا + پے]
جمع   : جَلاپے [جَلا + پے]
جمع غیر ندائی   : جَلاپوں [جَلا + پوں (واؤ مجہول)]
١ - جلن، کڑھن، رنج۔
"میں باز آئی ایسے جی کے جلاپے سے مجھ سے یہ سوخت نہیں اٹھائی جائے گی۔"      ( ١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ٧٨ )
٢ - رشک، حسد، سوکنوں کی جلن۔
"کیا میں رشک، حسد جلاپے جیسے قدیم و فرسودہ عام جذبے پر فتح نہیں پاسکتی۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٥٥ )