ریلوے

( ریلْوے )
{ ریل (ی مجہول) + وے }
( انگریزی )

تفصیلات


Railway  ریل  ریلْوے

انگریزی زبان سے اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل مفہوم کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٩٢١ء میں "کلیاتِ اکبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : ریلْویز [ریل (ی مجہول) + ویز (ی مجہول)]
١ - ریل کا محکمہ یا دفتر۔
 ریلوے کو فائدہ جن سے، وہ لیڈر تو نہیں رعب میدانوں میں تھا جن کا وہ غازی اب کہاں      ( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٩٨:٤ )
٢ - ریل گاڑیوں اور پٹڑیوں وغیرہ کا پورا انتظام۔
"ابتدا میں انہوں نے (اہل جاپان) ریلوے، ٹیلیگراف، لائٹ ہاؤس اور بحری فوج کا انتظام انگریزوں کے سپرد کیا۔"      ( ١٩٣١ء، مقدمات عبدالحق، ٨:١ )
٣ - ریل کی پٹڑی، ریل۔
 بنے ہیں تار گھر اور ڈاک خانے لگے ہیں ریلوے کے تانے بانے      ( ١٩١٥ء، کلامِ محروم، ١٣١:١ )