صادر

( صادِر )
{ صا + دِر }
( عربی )

تفصیلات


صدر  صادِر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت نیز گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥١٢ء کو "قادر (قدیم اردو مراثی)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - نکلنے والا، باہر آنے والا، (کسی جگہ سے) خارج ہونے والا۔
"وہ ہوا جس سے ثانوی روشنی صادر ہوتی ہے وہ صبح کی روشنی کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، مقالات ابن الہیشم، ٦٥ )
٢ - وقوع پذیر، ظاہر، واقع، سرزد۔
"دماغ جب حکم صادر کر دیتا ہے تو کچھ ہی دیر بعد یہ حرکت کرنے لگتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، اساسی حیوانات، ١٨٤ )
٣ - جاری نافذ (قانون حکم وغیرہ)۔
"کسی ایسی چیز کے بارے میں جس کے اثرات اتنے متضاد قسم کے ہوں قطعی فیصلوں کا صادر کرنا سخت نادانی کی بات ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ١٦١ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - [ معاشیات ]  وہ کاغذ جس کے ذریعہ خزانہ سے رقم اٹھائی جائے برآور و تنخواہ وغیرہ۔ (فرہنگِ عثمانیہ، 267)۔
٢ - [ معاشیات ]  دفاتر کے معمولی و غیر معمولی ضروریات کے لیے جن اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو صادر کہتے ہیں اس کی تین قسمیں ہیں صادر معمولی، ابوابِ مشترکہ، ابوابِ مختصہ۔ (ارکانِ اربعہ، 1:3)۔
٣ - [ زراعت ]  اتفاقی مصارف، خرچ۔
"صادر مرمت موٹ و آلات کشاورزی وغیرہ۔"      ( ١٩٠٧ء، فلاحتہ النخل، ٢٤٧ )
١ - صادِر فرمانا
جاری کرنا، نافذ کرنا، پاس کرنا (قانون، حکم وغیرہ)۔"ہندوستان کے مسلمانوں میں. کسی ایک عالم"