گریز

( گُریز )
{ گُریز (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں 'گریختن' مصدر کا حاصل مصدر 'گریز' ہے۔ اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بھاگنا، فرار۔
"اجتماعی زندگی کے جہنم زار سے نکل کر ایک فردوس خیال میں پہنچنے کے لیے دو حالتیں ضروری ہیں یا حقیقتوں کے شعور کا فقدان یا حقیقتوں سے بالقصد گریز۔"      ( ١٩٥٩ء، نبض دوراں، ١٥ )
٢ - علیحدگی، اجتناب، پرہیز، دوری۔
"انہوں نے وہاں بھی جلوس میں آنے سے گریز کیا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ٩٥ )
٣ - [ شاعری ]  قصیدے میں تمہید کے بعد اصل مضمون کی طرف متوجہ ہونا، تشیب کے بعد اور مدح کی طرف آنا۔
"ایسی تشبیبیں اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب گریز ایسی بے ساختہ ہو اور تشبیب اور مدح کو باہم اس طرح مربوط کر دے۔"      ( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٣٦ )
  • Flying (from);  flight
  • escape;  avoiding
  • shunning;  a diversion
  • digression;  deviation;  regression;  abstaining (from)
  • abstinence;  fasting;  aversion
  • dislike
  • abhorrence