گز

( گَز )
{ گَز }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو مثنوی "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گَزوں [گَزوں (و مجہول)]
١ - لمبائی ناپنے کا ایک پیمانہ یا آلہ جو عموماً لکڑی یا لوہے کی سلاخ پر مبنی ہوتا ہے اس کی لمبائی تین فٹ یا چھتیس انچ ہوتی ہے۔
"بے کار کترنوں سے دو گز کپڑا تیار ہو گیا۔"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ١٦٩ )
٢ - [ کنایہ ]  لوہے وغیرہ کی لمبی سلاخ۔
"ایک نکیلے لوہے کے گز سے ان کو پیٹ کے پاس سے آرپار کونچا۔"      ( ١٩٠٣ء، بچھڑی ہوئی دلہن، ٩٠ )
٣ - ایک وضح کا تیر جس میں پروپیکاں نہیں ہوتے۔
 وہ بھٹیاری باورچی اور نان پز لٹکتی تھیں بندوق ہاتھوں میں گز      ( ١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، ٤٥ )
٤ - لوہے کی سلاخ یا لکڑی کی چھڑ جس سے بندوق کی ڈاٹ لگاتے یا نال صاف کرتے ہیں۔
"جہاں پناہ ماشے کی راستی و گز و پر گز کے درست کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔"      ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ١، ٢٠٨:١ )
٥ - وہ سلاخ نما آلہ جس سے سارنگی یا اس قسم کے دوسرے ساز بجاتے ہیں۔
"باوا نے دوبرس تک مجھے صرف سارنگی کا گز سنبھالنا سکھایا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ٢٣٧ )
٦ - [ معماری ]  بستے (ٹٹی) کی بیچ میں جال یا جالی بنانے والی مختلف وضع پر جڑی یا بنی ہوئی تکوریاں، جو بی آڑیں۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 26:1)۔
٧ - [ گاڑی بانی ]  پہیے کے مرکزی حصے سے اور محیط کے دور یا حلقے کے درمیان لگی ہوئی تانیں جو مرکزی حصے کو دوری گھیرے کے ساتھ مرکز میں جوڑے اور تانے رکھتی ہیں، ارا، آران، سال، جہنی، جہنیا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 142:5)
٨ - جھاؤ کا درخت، طرفاء۔
"دیکھا کہ ایک جھماٹ پیڑ جیسے گز کہتے ہیں، نظر کے سامنے کھڑا ہے۔"      ( ١٩٣٤ء، خیال، داستان عجم، ١٣١ )
  • پَیْمانَہ
  • An iron bar;  a ramrod
  • a rammer;  bow (of a fiddle);  an instrument for measuring with;  a yard measure;  a foot - rule;  a yard (of measure
  • varying formerly from about thirty - two English inches upwards;  and now fixed by Government at thirty three inches)