کبیر

( کَبِیْر )
{ کَبِیْر }
( عربی )

تفصیلات


کبر  کِبر  کَبِیْر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - (منزلت یا صورت میں) بڑا، بزرگ۔
 کوئی سورج سے سیکھے عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے صغیروں میں، کبیروں میں      ( ١٩٨٤ء، لوح خاک، ١٧٤ )
٢ - خدائے تعالٰی کے اسمائے صفاتی میں سے ایک اسم۔
 تو متین و قادر و قہّار و قیوم و کبیر تو لطیف و مانع و رزاق و جبّار و خبیر      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٤ )
٣ - اودھی کا ایک صوفی منش مشہور شاعر جو سکندر شاہ لودھی کے زمانے (1458 تا 1526) میں گزرا ہے، اس کے دوہے بہت مشہور ہیں۔
"بھگتی تحریک کے نام سے ملک کے ہر حصے میں رامانج، نانک، چتنیہ، کبیر اور رامانند کے سے مصلحین اٹھے۔"      ( ١٩٧٧ء، ہندی اردو تنازعہ، ٦٧ )
٤ - بھارت میں بھڑونچ سے 12 میل کے فاصلے پر دریائے نربدا کے کنارے ایک بہت بڑا بڑ کا درخت ہے کہا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں دو ہزار آدمی بیٹھ سکتے ہیں، اس میں 357 تنے اور تین ہزار بھاری شاخیں ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ)
٥ - (ہندو) فحش اور عریاں گیت جو ہولی میں گائے جاتے ہیں، ہولی کا بھجن۔
 فلک پر گرجتا ہے ابر مطیر زمیں پر نہ کیوں رندگائیں کبیر      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣٥٦ )
٦ - [ عروض ]  ایک بحر کا نام جس کا وزن مفعولات مفعولات مستفعلن ہے۔
"اگر جزو دوم سے ابتدا کرو تو ایکبار عیلن فاع، لاتن مفا . یہی کبیر ہے۔"      ( ١٨٧١ء، قواعد العروض، ٣٨ )
  • great;  full-grown;  senior