رئیس

( رَئِیس )
{ رَئِیس }

تفصیلات


رءس  رَئِیس

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٠١ء میں آرائش محفل میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : رَئِیسَہ [رَای + سَہ]
جمع   : رَؤُسا [رَاُو + سا]
جمع ندائی   : رَئِیسو [رای + سو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رَئِیسوں [رَای + سوں (و مجہول)]
تقابلی حالت   : رَئِیس تَر [رَاِیس + تَر]
تفضیلی حالت   : رَئِیس تَرِین [رَاِیس + تَرِین]
١ - سردار، فرماں روا، مالک، حاکم۔
 رئیس و راجہ و نواب منتظر ہیں بہ شوق کہ نائب شہِ لندن کی آمد آمد ہے      ( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٣١٣:١ )
٢ - دولت مند، پیسے والا، امیر۔
"فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہیں شائد رئیسوں کے گھر میں ہوں۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، واردات، ٩ )
٣ - نواب، راجہ۔
"دولت پور کے رئیس کا نام سن کر تو ماں کے منہ میں پانی بھر آیا۔"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٢٣١ )
٤ - سربراہ
"ایک چینی فاضل اس جامعہ کا رئیس مقرر ہوا۔"      ( ١٩٢٧ء، مقدمہ تاریخِ سائنس، ١، ١١٠٤:٢ )
٥ - شریف، باعزت آدمی (ماخوذ : جامع اللغات؛ علمی اردو لغت)
٦ - اہم، بڑا۔
"چونکہ شریانِ قلب جیسے رئیس عضو کی شاخ ہے اس میں یہ قوتیں لامحالہ زیادہ ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، شرح اسباب (ترجمہ)،٢، ٢٨٤ )