اعلی

( اَعْلٰی )
{ اَع + لا (ا بشکل مد) }
( عربی )

تفصیلات


علو  اَعْلٰی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل 'عالی' کی تفضیل 'اعلٰی' بنا۔ اردو میں صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - مقام و مرتبہ یا سطح میں بہت بلند، بلندتر، سب سے اونچا، ارفع۔
 سب سے بات ہے ان کی بالا سب سے اونچے سب سے اعلٰی      ( ١٩٠٢ء، جذبات نادر، ٢٣:١ )
٢ - عمدہ، بہت عمدہ، ہر اعتبار سے بہتر، فائق تر۔
"اس نے رومیوں کے اعلٰی تمدن . میں پرورش پائی ہے۔"      ( ١٩١٠ء، فلپانا، ٤٨ )
٣ - بالاتر، منزہ و مبزا (بیشتر ارفع کے ساتھ)۔
"ثبوت کی شان اس سے بدرجہاں ارفع اعلٰی ہے۔"      ( ١٩١٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٣٧:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بلند فطرت انسان، اونچے درجے کا شخص، معزز آدمی (بیشتر ادنٰی کے بالمقابل)۔
"ہر ایک ادنٰی و اعلٰی سے قاف تک عزت کرے گا۔"      ( ١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ١٨:١ )
٢ - [ ظرف ]  اوپر، بلند مقام۔
"اس وجہ سے اعلٰی سے اسفل کی تیزی کے ساتھ آتا ہے۔"      ( ١٨٨٣ء، صید گاہ شوکتی، ٢٠٦ )