گنج

( گَنْج )
{ گَنْج (ن غنہ) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - (عموماً قیمتی اشیاء کا) ذخیرہ یا مخزن، خزانہ، دفینہ، کنز۔
"اپنے قارئین کو بھی مہم بازی کی ترغیب دیتا ہے اور تجربوں کے گنج گہر تک رہنمائی کرتا ہے۔"      ( ١٩٨٩ء، نگار، کراچی، نومبر، ٧٧ )
٢ - منڈی، آبادی، بستی۔
 سنا ہے آپ کی تحصیل میں ہیں بانس بہت جہاں سے گنج میں آئے وہاں ہے ٹال کی ٹال      ( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ٦٧ )
٣ - ڈھیر، انبار، کثرت۔
"اس ملک میں پہاڑ بالکل نہیں . سمندر کنارے پر ریتی کے گنج۔"      ( ١٨٧٠ء، خلاصہ علم جغرافیہ، ٤٢ )
٤ - بازار جہاں غلہ فروش غلہ جمع کرکے فروخت کرتے ہیں، اناج منڈی۔
"کئی بازاروں اور اناج کے گنجوں اور تہ بازاری کے حقوق بھی ان کو عطا کیے۔"      ( ١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ٢٨٠ )
٥ - انبار، جس میں بہت سی چیزیں سمائی ہوتی ہوں وہ چیز جس میں چاقو، قینچی، موچنہ، نشتر وغیرہ چھوٹے آلات رکھے یا لگائے جائیں۔
"پرکاروں کے گنج میں ایک آلہ ایسا بھی ہے جس سے یہ پرکار تیار ہوتا ہے۔"      ( ١٨٩٩ء، حیات جاوید، ٢٢:١ )
٦ - گنج آتشی، آتشیں کا انبار، ڈھیر۔
 نور کے قطرے فلک سے ہیں زمیں پر برسے چھوٹتے گنج ستاروں کے کہاں ہیں پیہم      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٩٠ )
٧ - چھوٹی سی آبادی، بستی، جیسے: پہاڑ گنج، کشن گنج وغیرہ۔
"سعد آباد تو سعید آباد، نصیر آباد تک میں جو مفتیوں کی بستی تھا اور خاندانوں کا گنج، کوئی گھرانا اس کی ٹکر کا نہ تھا۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ١١ )
  • Scald-head
  • baldness