جنت

( جَنَّت )
{ جَن + نَت }
( عربی )

تفصیلات


اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے ١٦١١ء میں "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مؤنث - واحد )
جمع   : جَنَّتیں [جَن + نَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : جَنَّتوں [جَن + نَتوں (واؤ مجہول)]
١ - [ اسلام ]  مرنے کے بعد صاحب ایمان نیکو کاروں کا مسکن جہاں ایسی نعمتیں موجود ہیں جنھیں نہ کسی بشر نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا، بہشت، باغ بہشت۔
"کیا تم کو خیال ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٦١:٣ )
٢ - [ کمپیوٹر ]  (Abacus) اباکس (یعنی چینیوں کے شمار و حساب و کتاب کا قدیم آلہ) کا بالائی حصہ۔
"اس کے فریم کو پتلی لکڑی کے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اوپر کے حصے کا نام جنت یا Heaven ہے اور نچلے کا دنیا یا Earth۔"      ( ١٩٦٩ء، کمپیوٹر کی کہانی، ٢٨ )
١ - جنت کی کھڑکی کھلنا
جنت کی سی سرد ہوا کے جھونکے آنا (مجازاً) آرام کی صورت پیدا ہونا (ماخوذ: علمی اردو لغت)
٢ - جنت کی ہوا آنا۔
خوشگوار ہوا آنا۔ ہجر میں یاد تری زلف رسا آتی ہے ہم کو دوزخ میں بھی جنت کی ہوا آتی ہے      ( ١٩٠٠ء، امیر مینائی (نور اللغات) )
٣ - جَنت میں جھاڑو دینا
[ تعلیمات  ]  کھانے کی پلیٹ وغیرہ صاف کر جانا، جو کچھ بچا ہو اسے بھی چٹ کر جانا۔"لڑکا کھا چکا تو میر صاحب بولے. جنت میں جھاڑو نہیں دے گا۔"      ( ١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ٣٣ )
٤ - جنت نصیب کرے
عاقبت بخیر ہو، بہشت ملے۔"مولوی آل احمد صاحب کو، خدا جنت نصیب کرے۔"      ( ١٩٥٨ء، شاد کی کہوانی شاد کی زبانی، ٥١ )