کال[1]

( کال[1] )
{ کال }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "مینا ستونتی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - قحط (خصوصاً اجناس کا)، (بارش نہ ہونے سے) اناج کا فقدان۔
"مدینہ میں ایک مرتبہ کال پڑا، دیکھتے ہی دیکھتے غلّہ مہنگا ہو گیا۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٩٦ )
٢ - (کسی چیز کی) کمی، قلت، نایابی۔
"جموّں کی بات چلی ہے تو وہاں مضبوط قیادت کے کال کی کچھ اور وجوہات کی طرف اشارہ کرنا بےمحل نہ ہو گا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٢٤٩ )
٣ - موت، موت کا وقت نیز موت کا فرشتہ۔
"موت یا کال ایک ہے مگر اس کے روپ انیک ہیں۔"    ( ١٩٢٠ء، یوگ واسشٹ (ترجمہ)، ٤٣ )
٤ - [ مجازا ] وبال، بلا، مصیبت۔
 شکوے کریں گے اس سے جو ہے حاکمِ فلک کس طرح دیکھیں ہوتی ہے اب جی کا کال دھوپ    ( ١٨٨١ء، اسیر لکھنوی، مجمع البحرین، ٣٩:٢ )
٥ - وقت، زمانہ، موسم۔
"کال یا زمان کا تصور لاتعداد ذرات پر مشتمل ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، فلسفہ کیا ہے، ٦٦٦ )
٦ - درست یا حقیقی وقت، موقع، مناسب موسم، (قواعد) زمانہ، فعل کی صورت جس سے اس کا حال، مستقبل یا ماضی میں واقع ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (پلیٹس)
٧ - [ موسیقی ]  سم اور ٹال کے درمیان کا وقفہ یا سکون۔
"کال وہ ہے کہ اوس کے سکون کا زمانہ چھ درجوں تک محسوس نہیں ہوتا۔"      ( ١٩٢٧ء، نغمات الہند، ٨٤:١ )
٨ - قسمت، نصیبا، قسمت کے کھیل۔ (پلیٹس)
١ - کال پَڑنا
قحط پڑنا، خشک سالی ہونا۔"سال کے بارہ مہینے یہاں کال پڑا رہتا تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ١٧٣ )
توڑا ہونا، کمی ہونا، کسی چیز کی نایابی ہونا۔ اب کے ہم پر کیسا سال پڑا لوگو شہر میں آوازوں کا کال پڑا لوگو      ( ١٩٨٦ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٧٣ )