صندوق

( صَنْدُوق )
{ صَن + دُوق }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم جامد ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز شاذ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ابھرا ہوا، آگے کو نکلا ہوا، جیسے: سینہ صندوق ہے۔ (فرہنگِ آصفیہ)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : صَنادِیق [صنا + دِیق]
جمع غیر ندائی   : صَنْدُوقوں [صَن + دُو + قوں (و مجہول)]
١ - لکڑی یا لوہے وغیرہ سے بنا ہوا بڑا بکس۔
"ایک دن میں نے اس کا صندوق کھولا تمام سامان پر کیڑے رینگ رہے تھے۔"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٤٦ )
٢ - تابوت، بکس جس میں مردے کو بند کرتے ہیں۔
"صندوق کے گرد تمام احبا، اعزا جمع ہیں، آنکھوں پر رومال ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، ارمان، ٣٤ )
٣ - [ تکیے داری ]  قبر کا گڑھا یا لحد جس کی شکل صندوق کی بنائی جاتی ہے۔
"اپنے باپ کی قبر پر بیٹھے فقیر کے لڑکے سے جھگڑا کرتے دیکھا کہ میرے باپ کے مزار کا صندوق سنگین ہے۔"      ( ١٨٥٥ء، گلستان، ٥٣٢ )
٤ - پسلیو کا حلقہ یا ڈھانچہ۔
"صدر کے گرد پسلیوں کا صندوق بنا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨١ء، اساسی حیوانیات، ٢٢٨ )