ڈیرا

( ڈیرا )
{ ڈے + را }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دیرہ' کا مؤرد ہے (غالباً) اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ڈیرے [ڈے + رے]
جمع   : ڈیرے [ڈے + رے]
جمع غیر ندائی   : ڈیروں [ڈے + روں (و مجہول)]
١ - خیمہ، تنبو، پڑاؤ کی قیام گاہ۔
 دل کبھی شہر سدا رنگ ہوا کرتا تھا اب تو اجڑے ہوئے ڈیرے کے سوا کچھ بھی نہیں      ( ١٩٨٠ء، شہر سدا رنگ، ١٢٤ )
٢ - عارضی مکان یا قیام گاہ۔
"ہمارا سامان جہاز سے اتارا گیا اور ہم واپس اپنے ڈیرے پر آگئے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٨٢٤ )
٣ - گھر
"رات گئے ڈیرے پر واپس ہوتے ہوئے میں نے سوچا کہ افسوس ہے مجھ پر کہ ادیبوں سے ملتا پھرتا ہوں۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ٣٢ )
٤ - قیام، اقامت، رہائش۔
 کوئی منزل نہیں تیرے جنوں کی مسافت میں کہاں ڈیڑا ہے تیرا      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٢٧ )
٥ - بستر
"دوسرے کونے میں یوسف ظفر کا ڈیرا ہوتا۔"      ( ١٩٨٤ء، اوکھے لوگ، ٢٩٢ )
٦ - ٹھکانا، مراد: قبر۔
 اگر پانی چلے لے کر وگرنہ اسی میدان کو بُوجھ اپنا ڈیرا      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ١٧١ )
٧ - ہر اول دستہ، کسی جماعت کا نمائندہ جو جماعت سے پہلے آئے۔
"کچھ آدمی کیرتپور میں واسطہ جمع کرنے رسد کے بیھجے تھے ہنوز اُن کا ڈیرا یا پیش خیمہ نہیں آیا۔"      ( ١٨٥٨ء، سرکشی ضلع بجنور، ٢٣٢ )
٨ - رنڈیوں کا طائفہ۔ (مہذب اللغات)
٩ - زمیندار کا مکان جو گانو میں ہوتا ہے۔ (فرہنگِ آصفیہ؛ مہذب اللغات)