اسامی

( اَسامی )
{ اَسا + می }
( عربی )

تفصیلات


اسم  اِسْم  اَسامی

عربی زبان سے حاصل مصدر 'اِسْم' سے جمع ہے۔ اردو میں بطور واحد بھی مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٨ء کو "داستان فتح جنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - جمع )
١ - متعدد نام، اسما۔
"تو دو سلیمانی پتھر لے اور ان پر اسامی بنی اسرائیل کے کندہ کر۔"      ( ١٨٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٣٢٠ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَسامِیاں [اَسا + مِیاں]
جمع غیر ندائی   : اَسامِیوں [اَسا + مِیوں]
١ - کسان، کاشتکار، مزارع، جو زمین دار سے پٹے وغیرہ پر زمین لے اور رعیت کی حیثیت سے رہے یا کاشت کرے۔
"میرا اور بھائی صاحب مرحوم کا کئی ہزار روپیہ اسامیوں کو قرض دیا گیا تھا۔"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ، حیدر، ٨٠ )
٢ - وہ آدمی جس سے جبراً یا دھوکہ دے کر منفعت حاصل کرنا مقصود ہو۔
"ہم اسی سرحد میں اپنی اسامی کا کام تمام کر دیتے ہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، فراق (ناصر نذیر) لال قلعہ کی ایک جھلک، ٩٢ )
٣ - جس پر استغاثہ کیا جائے۔
"حال دریافت کر کے اسامی و فریادی کو مع گواہان طرفین کے حاکم کے آگے لے جاتے ہیں۔"    ( ١٨٨٤ء، تاریخ ممالک چین، ١١١:١ )
٤ - مؤکل جس کے معاملے میں عدالت میں پیروی کی جائے۔
"انھیں باضابطہ وکیل بنایا اور . ان کو اچھی اچھی اسامیاں دیں۔"
٥ - (جوئے بازی) اناڑی، کھیلنے والا، جو ہمیشہ ہار جائے۔ نوراللغات، 327:1
٦ - طوائف؛ طوائف کا آشنا؛ مقروض؛ دیہات کا باشندہ؛ جس کے ہاں جا کر ٹھہریں؛ جس سے جان پہچان ہو۔ (پلیٹس)
٧ - فرد، شخص
"جاں نثار ان گنواروں کے بس میں آنے والی اسامی نہیں۔"      ( ١٨٨٨ء، ابن الوقت، ٢٨ )
٨ - گاہک، خریدار، لین دین رکھنے والا شخص۔
"سیٹھ جی یہ تو آپ کی پرانی اسامی ہیں، آپ کی دکان چھوڑ کر دوسرے کے ہاں کیوں جانے لگے۔"
٩ - (ملازمت کی) جگہ یا عہدہ، پوسٹ، خدمت، نوکری۔
"ایک قلیل تنخواہ کی اسامی ضلع حصار کے کلکٹر کے دفتر میں مل گئی۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٩٧ )