کاوش

( کاوِش )
{ کا + وِش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو "دیوان قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کاوِشیں [کا + وِشیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کاوِشوں [کا + وِشوں (واؤ مجہول)]
١ - تلاش، جستجو (کسی کام کی) جدوجہد یا اتہام میں زحمت و صعوبت کی برداشت، کرید، کھوج۔
"یگانہ کے باطن کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں کچھ زیادہ کاوش . کی ضرورت نہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، نیم رخ، ١٦ )
٢ - خلش، کھٹک، چبھن۔
 کیا جانے آہ کاوشِ پیہم کی لذتیں وہ دل کہ جس میں ٹوٹ کے پیکاں نہیں رہا      ( ١٩٤٠ء، کلیات بیخود موہانی، ٩ )
٣ - دشمنی، بیر، حسد۔
"مولف کو غالب سے عقیدت ہے کاوش نہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، نثر ریاض، ٩١ )
٤ - کھدائی، کھودنا۔
"کسی گہرے نشیب و کاواک میں پانی جمع ہوا کرتا ہے اور اس کو کاوش زمین سے ہم پیدا کر سکتے ہیں۔"      ( ١٨٩٠ء، جغرافیہ طبعی، ١١٧:١ )
٥ - تلاش، جستجو اور محنت سے انجام دیا ہوا کام، خون پسینہ ایک کر کے کسی کام کا تکملہ۔
"کوئی شخص عمر بھر کی کاوش کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٢٦٨ )
  • digging;  excavation;  investigation
  • inquiry;  intentness;  menacing;  disputing;  enmity