خلش

( خَلِش )
{ خَلِش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے مصدر 'خلیلدن' سے حاصل مصدر 'خلش' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء کو "جنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - چبھن؛ کھٹک۔
 غضب کہ لٹ گئی دولتِ غم محبت کی نہ اب خلش رہی باقی نہ درد باقی ہے      ( ١٩٨٣ء، حصار انا، ١١٢ )
٢ - رنج، فکر، الجھن، پریشانی۔
"ایک اندرونی اضطراب اور خلش سے اس کے چہرے پر تشنج کے اثرات پھیل گئے۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١١٦ )
٣ - خصومیت، بغض، کینہ، رنجش۔
 دشت میں باعثِ ایذا ہیں ستم گار بہت آبلوں سے مرے رکھتے ہیں خلش خار بہت      ( ١٩٠٧ء، دفتر خیال، ٣٥ )
١ - خلش مٹانا
فکرو تردد یا پریشانی دور کرنا۔ جو تھیں منتظر گھر پہ ماں اور دادی فلش ان کے دل کی بھی آکر مٹا دی      ( ١٩٠٩ء، مظہر المعرفت، ٨ )
  • pricking
  • pain;  care
  • solicitude
  • anxiety;  apprehension
  • suspicion
  • misgiving;  putting a stop to
  • interruption.