عشوہ

( عِشْوَہ )
{ عِش + وَہ }
( عربی )

تفصیلات


عشو  عِشْوَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی میں اصل لفظ 'عشوۃ' ہے۔ اردو میں تائے مربوطہ کو 'ہ' میں بدل دیا گیا ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - ناز و ادا، غمزہ، کرشمہ۔
"سراپے میں ناز و انداز و عشوہ سے زیادہ ایک عجیب النوع رومانوی بھاری بھر کم پن کا طور جھلک رہا تھا۔"      ( ١٩٨٦ء، انصاف، ٢٤٣ )
٢ - مشتبہ بات کرنا؛ (مجازاً) فریب۔
"راہ معرفت باوجود یکہ بہت دور دراز ہے مجھکو کوتاہی کا عشوہ یعنی فریب دیتی ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ٢٥٠ )
٣ - [ تصوف ]  تجلی جمالی کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف، 176)
  • Darkness
  • the first of the darkness (of the night);  a confused and dubious affair ;   or venture
  • or undertaking;  a dangerous affair;  a fire seen from a distance at night;  a beacon;  (met.) coquetry
  • ogling
  • blandishments
  • amorous playfulness