ناز

( ناز )
{ ناز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور اپنے اصل معنی میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : نازوں [نا + زوں (و مجہول)]
١ - لاڈ، پیار، اٹھلاہٹ، چونچلا، ادا، نخرہ۔
"شاعروں کے کلام پر غور کیا تو میں باوجود کوشش کے کبھی نہ سمجھ سکی کہ چتون، بانکپن، پھبن اور ناز وغیرہ کسے کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، نیاز فتح پوری، شخصیت اور فن، ٣٣٦ )
٢ - شوخی، چھل بل، چلبلاہٹ، چٹک مٹک۔
"نہ ناز، نہ غمزہ، گہری سنجیدگی، اس پر طاری تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، دریا کے سنگ، ١٠٣ )
٣ - غرور، گھمنڈ، مان، نخوت، پندار۔
 بے نیازی پہ اثر ناز تھا ان کو اپنی ہو گئے خود بھی پریشاں جو پریشاں دیکھا      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ٥٢ )
٤ - تغافل، بے نیازی، بے پروائی۔
"ناز، بے پروائی، تغافل اور معشوق کا تجاہل عارفانہ۔"      ( ١٩٨٤ء، فن تاریخ گوئی اور اسکی روایت، ١٦٢ )
٥ - [ مجازا ]  شان، تمکنت، ٹھسا، ٹھسک۔
"پھوپھی نے کرسی میں دھنس کر ناز سے ایک وار کیا۔"      ( ١٩٨٢ء، خدیجہ مستور، بوچھار، ١٣١ )
٦ - بڑائی، عزت، فخر، افتخار۔
"مثنویوں کے موضوع کے سلسلے میں اقبال کا ناز و افتخار بجا ہے۔"      ( ١٩٩٣ء، نگار، کراچی، اپریل، ٣٤ )
٧ - بھروسہ، تکیہ، برتا، حمایت، پشتی۔
"باپ کو بجائے خود جس قدر اسی اولاد پر ناز تھا، حق بجانب تھا۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، دھوکا، ٩٧ )
٨ - لبھانا، منانا؛ فریب دنیا۔ (پلیٹس)
٩ - شوخ عاشق۔ (پلیٹس)
١٠ - کسی کی نظر میں اپنے آپ کو یا کسی اور کو مقبول و عزیز بنانے کا انداز۔ (پلیٹس)۔
١١ - [ تصوف ]  نیا پودا، نورستہ درخت، سروا اور صنوبر کا درخت۔ (مصباح التعرف)۔
١٢ - [ تصوف ]  خدا کی ایک صفت۔
"ناز . اصطلاح میں صفت معشوق حقیقی کو کہتے ہیں کہ عاشق پر ظاہراً و باطناً تجلی فرماتا ہے۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ٢٥٥ )
١٣ - [ قدیم ]  نزاکت
 کہی توں سنوار یا محل سازسوں لکھیا صورتاں اس میں بھو نازسوں      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١٨ )