اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - لاڈ، پیار، اٹھلاہٹ، چونچلا، ادا، نخرہ۔
"شاعروں کے کلام پر غور کیا تو میں باوجود کوشش کے کبھی نہ سمجھ سکی کہ چتون، بانکپن، پھبن اور ناز وغیرہ کسے کہتے ہیں۔"
( ١٩٨٦ء، نیاز فتح پوری، شخصیت اور فن، ٣٣٦ )
٢ - شوخی، چھل بل، چلبلاہٹ، چٹک مٹک۔
"نہ ناز، نہ غمزہ، گہری سنجیدگی، اس پر طاری تھی۔"
( ١٩٨٦ء، دریا کے سنگ، ١٠٣ )
٣ - غرور، گھمنڈ، مان، نخوت، پندار۔
بے نیازی پہ اثر ناز تھا ان کو اپنی ہو گئے خود بھی پریشاں جو پریشاں دیکھا
( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ٥٢ )
٤ - تغافل، بے نیازی، بے پروائی۔
"ناز، بے پروائی، تغافل اور معشوق کا تجاہل عارفانہ۔"
( ١٩٨٤ء، فن تاریخ گوئی اور اسکی روایت، ١٦٢ )
٥ - [ مجازا ] شان، تمکنت، ٹھسا، ٹھسک۔
"پھوپھی نے کرسی میں دھنس کر ناز سے ایک وار کیا۔"
( ١٩٨٢ء، خدیجہ مستور، بوچھار، ١٣١ )
٦ - بڑائی، عزت، فخر، افتخار۔
"مثنویوں کے موضوع کے سلسلے میں اقبال کا ناز و افتخار بجا ہے۔"
( ١٩٩٣ء، نگار، کراچی، اپریل، ٣٤ )
٧ - بھروسہ، تکیہ، برتا، حمایت، پشتی۔
"باپ کو بجائے خود جس قدر اسی اولاد پر ناز تھا، حق بجانب تھا۔"
( ١٩١٥ء، سجاد حسین، دھوکا، ٩٧ )
٨ - لبھانا، منانا؛ فریب دنیا۔ (پلیٹس)
١٠ - کسی کی نظر میں اپنے آپ کو یا کسی اور کو مقبول و عزیز بنانے کا انداز۔ (پلیٹس)۔
١١ - [ تصوف ] نیا پودا، نورستہ درخت، سروا اور صنوبر کا درخت۔ (مصباح التعرف)۔
١٢ - [ تصوف ] خدا کی ایک صفت۔
"ناز . اصطلاح میں صفت معشوق حقیقی کو کہتے ہیں کہ عاشق پر ظاہراً و باطناً تجلی فرماتا ہے۔"
( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ٢٥٥ )
١٣ - [ قدیم ] نزاکت
کہی توں سنوار یا محل سازسوں لکھیا صورتاں اس میں بھو نازسوں
( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١٨ )