سنسکرت سے ماخوذ اسم صوت 'سن سن' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت ملنے سے 'سنسنی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٨٧٧ کو "توبۃالنصوح" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
"مجھے اپنے پورے بدن میں سنسنی اور تناؤ کی ایک ایسی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی جو صرف موت کو اپنے مقابل کھڑے دیکھ کر ہی محسوس ہو سکتی ہے۔"
( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١١ )
٢ - خوف، ہراس۔
"حسن لشکری کے اس غیر متوقع حملے سے ایوان میں ایک سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔"
( ١٩٤٩ء، اک محشرِ خیال، ١٣ )
٣ - ہیجان۔
"ہمارے روزانہ اخبار ہمارے اندر ایک سنسنی تو پیدا کرتے ہیں لیکن ہم اُن سے سیکھتے کچھ نہیں۔"
( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ٣٦٩ )