لالہ

( لالَہ )
{ لا + لَہ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : لالے [لا + لے]
جمع   : لالے [لا + لے]
جمع غیر ندائی   : لالوں [لا + لوں (و مجہول)]
١ - ایک نہایت سرخ پھول جس کے درمیان سیاہ داغ ہوتا ہے، گل لالہ۔
 نہ دماغ لالہ و گل ہمیں، نہ خیال دیر و حرم ہمیں تری چشم لطف کی خیر ہو غم دو جہاں سے گزر گئے      ( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ٤٣:١ )
٢ - [ کنایۃ ]  لب معشوق نیز عاشق کا داغ دار دل۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)۔
٣ - گل لالہ سے مشابہ چراغ جس میں موم بتیاں وغیرہ روشن ہوں، پہلے امراء کی محفلوں میں خصوصاً مشاعروں میں جلایا جاتا تھا۔"
"ہر طرف جھاڑ فانوس لالہ مردنگ اور کنول روشن تھے۔"      ( ١٩٤١ء، جزیرۂ سنخوراں، ٩٤ )