دیرینہ

( دیرِینَہ )
{ دے + ری + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دیر  دیرِینَہ

فارسی زبان سے اسم جامد 'دیر' کے ساتھ 'یں' بطور لاحقۂ صفت لگا کر 'ہ' بطور لاحقۂ صفت تانیث لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٧٥٥ء کو یقین کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی
١ - جو پہلے سے اب تک براقرار ہو، بہت عرصے سے ہو، پرانا۔
 میرے سر کو تیرے در سے نسبت ہے دیرینہ میں نے تیرے در کو اپنی زیست کا محور جانا      ( ١٩٨٤ء، چاند پر بادل، ١٤٢ )
٢ - گزرا ہوا، سابق، حقوق دیرینہ بھولے۔ (1861ء فسانہ عبرت، 14)
٣ - جس نے طول پکڑ لیا ہو، طویل۔
 لاکھ دیرینہ ہو لیکن عشق سے بچتا نہیں آفتاب اک داغ تابندہ ہے چرخ پیر کا      ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ٥١ )
٤ - تجربہ کار، ماہر، چالاک؛ ہنر مند۔
 سپہ میں دلیران پیشینہ تھے پانی کے میانے اوبی دیرینہ تھے      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٦٣٩ )
٥ - [ نباتیات ]  مرکز یا نقطۂ اتصال سے دور، آخری سرے کا؛ انگریزی Distal
ذخیشومی ریشوں کے دیرینہ Distal سرے خیشومی خانہ میں واقع ہوتے ہیں۔ خیشومی ریشوں میں شعری نالیوں کی بہتات ہے۔"      ( ١٩٦٥ء، حیوانیات، ١٧٥:١ )
  • old
  • ancient;  experienced
  • wise;  shrewd
  • cunning