دید

( دِید )
{ دِید }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے مصدر 'دیدن' سے فعل ماضی مطلق صیغہ واحد غائب 'دید' بنا جو بطور حاصل مصدر بھی مستعمل ہے۔ اردو میں ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - نظارہ کرنا، نِگاہ ڈالنا (کسی چیز یا بے جان شے پر)۔
 کب اس کی دید سے شاداں مری نظر ہو گی نئی حیات بھی کیا، درد میں بسر ہو گی    ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٩٣ )
٢ - دیدار، درشن۔
"میں تمہاری دید کو ترس گئی تھی شکر ہے کہ میرا بھائی آگیا۔"    ( ١٩٦٨ء، براہوی لوک کہانیاں، ٩٨ )
٣ - خدا کا جلوہ، تجلی۔
 وعدہ نہیں حشر کے دن کس سے دید کا حصہ ابھی سے بانٹ رہے ہیں وہ عید کا    ( ١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ٤٩ )
٤ - نگاہ، نظر، لحاظ، پاس۔
"پروفیسر شبیر الحسن کی دید، مرزا جعفر حسین کی شنید واہ واہ کیا کتاب لکھی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، زمیں اور فلک اور، ١٢٢ )
٥ - معائنہ
"پروفیسر شبید الحسن کی دید، مرزا جعفر حسین کی شنید واہ واہ کیا کتاب لکھی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، زمین اور فلک اور، ١٢٢ )