کفر

( کُفْر )
{ کُفْر }
( عربی )

تفصیلات


کفر  کُفْر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "بندہ نواز، معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - [ فقہ ] اللہ کے وجود سے انکار، اللہ کو نہ ماننا، خدا کے وجود کا انکار، شرع اسلامی سے عمداً گریز، اسلام کی ضد، بے دینی، گمراہی۔
"آج سے چھ سو سال قبل یہ شہر ایک ہندو راجہ کی راجدھانی اور کفر و شرک کی آماجگاہ تھا۔"    ( ١٩٧٩ء، سلہٹ میں اردو، ٢٦٢ )
٢ - اللہ تعالٰی کی نعمت کی ناشکری، کفران نعمت
"ناشکری کو بھی کفر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں محسن کے احسان کو چھپانا ہے۔"    ( ١٩٦٩ء، معارف القرآن، ٦٣:١ )
٣ - [ لفظا ]  چھپانا، دبا لینا۔
"کفر کے لفظی معنی چھپانے کے ہیں۔"      ( ١٩٦٩ء، معارف القرآن، ٦٣:١ )
٤ - شدید گناہ، بڑا جرم۔
 توڑنا دیر و حرم تک ہے نہ چنداں ہے گناہ اپنے مذہب میں ہے کچھ کفر تو آزردنِ دل      ( ١٧٨٥ء، دیوانِ قائم، ٨٣ )
٥ - ہٹ، ضد۔ (ماخوذ علمی اردو لغت)
٦ - [ تصوف ]  کفر کی دو قسمیں ہیں مجازی اور حقیقی یہ ہے کہ سالک ذات حقانی کو عین صفات اور صفات کو عین ذاتِ حق کے کسی کو موجود نہ جانے یہ حقیقت میں توحید اور ایمان ہے اگرچہ عوام کو کفر معلوم ہوتا ہے۔
"غالباً مرزا نے کفر مراد لیا ہے جو صوفیہ کرام کی اصطلاح کے موافق ایک بڑا مرتبہ فقر و درویشی میں سے شمار کیا جاتا ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ٢٦٠ )