ضد

( ضِد )
{ ضِد }
( عربی )

تفصیلات


ضدد  ضِد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : ضِدیں [ضِدیں (یائے مجہول)]
جمع استثنائی   : اِضْداد [اِض + داد]
جمع غیر ندائی   : ضِدوں [ضِددوں (واؤ مجہول)]
١ - دشمن، کینہ، مخالفت، بیر۔
 آکے وعدہ پہ مرے گھر سے وہ پھر جاتے ہیں کیا ہی تقدیر کو ضد ہے مری تدبیر کے ساتھ      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ١٥٥ )
٢ - ہٹ، اصرار، اڑ، ہٹ دھرمی۔
"انہوں نے بڑے اصرار کے ساتھ مجھ سے کہا کہ ضد چھوڑ دو، اس معمولی بات پرمعاملات کو بگڑنے نہ دو۔"    ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥١٤ )
٣ - انانیت، غصہ۔
"اور اسی کے ساتھ اس کی غصیلی اور پر ضد طبیعت کے لحاظ سے کسی واجبی سی واجبی بات کو جو اسی کی اپنی اکیلی مرضی کے برخلاف ہو آزادنہ اس کے سامنے پیش کرنے کی بہت کم جرأت کرتے ہوں۔"    ( ١٩١٧ء، وقارالملک، تذکرہ وقار، ١٥٠ )
٤ - وہ شے جو مد مقابل شے کے ساتھ جمع نہ ہو سکے، متضاد یا برعکس (چیز یا بات)۔
 خدائی میں بے مثل و ضد ہے وہی ولم یولد اور لم یلد ہے وہی      ( ١٨٣٤ء، مثنوی ناسخ، ٢٦ )
٥ - [ تصوف ]  ضد شئے عین شئے ہے باوجود ضدیت کے جیسے آب و آتش ہے، ان میں باہم ضدیت ہے لیکن باطن میں ایک دوسرے کا عین ہے۔ کیونکہ آپ مربوب اسم قابض ہے، پس آب محی اور آتش قابض ہے اور محی اور قابض دونوں اسماء اللہ میں سے ہیں اور اسم اللہ جامع ہے جمیع اسماء کا اور اسم اللہ میں صفت اور تاثیر محی اور قابض دونوں کی موجود ہے۔ (مصباح التعرف، 163)
١ - ضد پکڑنا
اصرار کرنا، ہٹ کرنا، اڑ جانا۔"ڈاکٹروں نے کہا بس اتنا خون کافی ہے، مگر وہ ضد پکڑ گیا کہ نہیں اور نکالو۔"      ( ١٩٦٦ء، ساقی، کراچی، ستمبر، ١٥٣ )
٢ - ضد باندھنا
ہٹ کرنا، اڑ جانا۔ ملے ہرگز نہ تم مجھ سے گلے کیا جانتا تھا میں کہ مجھ سے اس قدر ضد آپ روز عید باندھیں گے      ( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ١١٤:٢ )
مخالفت یا بحث کرنا، بیر کرنا، دشمنی کرنا۔ جگر خستہ سے کیوں سینہ میں ضد باندھی ہے دل تو ہی چل ہدف ناوک مژگاں ہونا      ( ١٨٧٩ء، دیوان عیش دہلوی، ٧٤ )
  • The contrary (of)
  • the opposite (of);  contrariety;  persistence
  • insistence
  • obstinacy