سونا

( سونا )
{ سو (و مجہول) + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


شوء  سونا

پراکرت الاصل لفظ 'شوء' سے اردو میں ماخوذ اسم 'سو' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت 'نا' بطور علامت مصدر بڑھانے سے 'سونا' بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - جاگنے کا نقیض، نیند آجانا۔
"میرا تو ابھی سونا نمبر ایک ہی ختم نہیں ہوا اور تم اس کی جان کے دشمن ہوئے ہو۔"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ٦٩ )
٢ - مباشرت کرنا، ہم بستری کرنا۔
"کھانا کھائیں تو استخارہ، پانی پئیں تو استخارہ، نگوڑی جُروا کے ساتھ سوئیں تو استخارہ۔"      ( ١٩٢٩ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٤، ٤:١٠ )
٣ - مرنا، قبر میں لیٹنا، دفن ہونا۔
"ادھر بڑی بی سوئیں اُدھر میں نے حویلی کے کوڑے کئے۔"      ( ١٩٣٢ء، اخوان الشیاطین، ٣٢١ )
٤ - سُن ہونا، بے حس و حرکت ہونا۔
 بے نظیر اٹھتے نہیں ضعف سے غربت میں قدم سو گئے پاؤں بھی میرے میری تقدیر کے ساتھ    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلامِ بے نظیر، ١٥٣ )
٥ - معطل ہو جانا، خاموش ہو جانا۔
"حوض میں پچی کاری کا کام تھا اور اس کا فوارہ کبھی بلاوجہ سو جاتا، کبھی کبھی جاگ کر موتی برسانے لگتا۔"    ( ١٩٤٦ء، آگ، ٢٥ )
٦ - غفلت و لاپروائی کا شکار ہونا، غافل ہونا، بے خبر ہونا۔
 ہشیار نہیں ہے روح جس کی سو جائے مانوس جمود سے طبیعت ہو جائے      ( ١٩٤٧ء، لالہ وگل، ٤٣ )