زر

( زَر )
{ زَر }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - کندن، سونا، طلا، قیمتی دھات۔
"اسی روز کا ذکر ہے کہ رادھا صبح دس بجے باہر کی نشست گاہ میں جنگلے کے سامنے سر سے پاؤں تک زر و سیم سے آراستہ بیٹھی ہوئی تھی۔"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، ستمبر، ٦٠ )
٢ - روپیہ پیسہ، دولت۔
"ایک ایسا شخص جو زر، زمین اور بہت سا اثاثہ چھوڑ کر مرتا ہے اس کے ورثاء میں اس کی تقسیم بڑی آسانی سے ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٨٦ )
٣ - پھول کے اندر کا زرد رنگ مادہ، زیرہ، زرگل، زردانہ۔
 زرگل سے بھرے پتوں کے کاسے تونگر ہو گئے آخر گدا تک      ( ١٩٨٦ء، غبار ماہ، ٩٢ )
٤ - [ تصوف ]  ریاضت اور مجاہدے کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف)
١ - زربرسنا
بے حد روپیہ ملنا۔ (جامع اللغات)
٢ - زرخرید کرنا
قیمت دے کر خریدنا، دولت خرچ کر کے لینا۔"ان کی جیب میں چند اشرفیاں تھیں، وہ نکال کر مالک مکان کو دیں اور مکان زرخرید کیا اور وہاں رہنے لگے"      ( ١٨٦٤ء، تحقیقات چشتی، ١٢۔ )
  • Gold;  money
  • riches
  • wealth