سیج

( سیج )
{ سیج (ی مجہول) }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مؤنث - واحد )
١ - پلنگ، مسہری، چھپرکھٹ، چارپائی، سونے کا تخت، خوابگاہ۔
 چھوڑ کے سکھ کی سیج کو کیا تو آئے گا میرے پاس میرے الاؤ میں آگ نہیں ہے اور نہ چٹائی کی آس      ( ١٩٧٩ء، شیخ ایاز شخص اور شاعر، ١٠٣ )
٢ - پھولوں کا بچھونا جو بستر پر بچھاتے ہیں، فرشِ خواب، پھولوں کی چادر۔
 تیزی سے دریچے مُڑ رہے تھے اور سیج کے پھول اُڑ رہے تھے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٤٩ )
٣ - سجی ہوئی مسہری، پھولوں بکھیرا پلنگ یا بستر۔
"اگنی کو مطلق احساس نہ ہوا کہ اس کی سیج اُڑن کھٹولا بن گئی۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٩٠ )
٤ - مویشیوں کا گھاس پھُوس یا پتوں وغیرہ کا بچھونا، گھوڑے وغیرہ کی بچھائی۔
"زمین پر سے پتے فراہم کئے جاتے ہیں بہترین سیج چیڑ کے سوئی جیسے پتوں کا ہے جو ریشے دار جاذب رطوبات ہوتا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، مصرفِ جنگلات، ٢٥٨ )
  • a bed
  • couch;  bedding;  a layer of strew (for a horse)